والدین کا اپنے اولاد پر اَن گنت احسانات ہوتےہیں۔ اولاد اپنے والدین کے احسانات کا کبھی قرضہ نہیں چکا سکتے ہیں۔ البتہ والدین پر بھی یہ حق لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین پرورش کریں ۔ ان کی جائز حاجتوں کا پورا خیال رکھیں ۔ زمانے کے تیز بہاؤ کے ساتھ جیناسکھادیں۔ ان سے جائز امیدیںوابستہ رکھیں،بےجاڈانٹ ڈپٹ اورانہیں طعنےدینےسےپرہیزکریں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ اولاد اپنے والدین، خاص کر، والد کے سامنے زیادہ کھل کر بات نہیں کرپاتے ہیں۔ زیادہ تر لڑکوں میں یہ بات پائی جاتی ہے۔ لڑکے ایڈوینچرس کے شوقین ہوتے ہیں اور جو بھی اس راہ میں(خواہ مثبت یا منفی) مداخلت کرے، انہیں وہ قابل قبول نہیں ہوتیں ۔ ہاں!لڑکے کے اوپر گھر کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔اپنا کیریئر، شادی، گھر بنانا، بہنوں کی شادیاں، بوڑھے ماں باپ کا سہارا بننا،وغیرہ۔ اس کے علاوہ سماج کی امیدوں پر کھرا اترنا اور اپنی مردانگی کا ثبوت دینا اس کے ذہن پر نقش ہوتے ہیں۔ بعض اوقات اپنی اَنا کا پجاری ہونا بھی ایک لڑکے کی زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ ان ذمہ داریوں کے بھوج کے تلے ایک لڑکا دب کر رہتا ہے۔ اس کی جوانی کے پنکھ کٹ جاتے ہیں یا پھر کاٹ دیے جاتے ہیں۔ اپنے ارمانوں کا گلا کٹتے دیکھ کر ایک لڑکا مرنے سے پہلے کئی بار مرتا ہے! اس کا نتیجہ والدین اور اولاد کے بیچ بڑھتے ہوئے فاصلوں کی شکل میں دکھائی دے رہا ہے۔ یہ بہت مشکل گھڑی ہوتی ہے۔ اس کا تدارک نہایت ضروری ہوتا ہے۔
رفتار زمانہ کے ساتھ حالات بدلتے ہیں اور اب انسان بھی بدل گیا ہے۔ غصہ اور لڑائی پر اُترآنا عام سا ہوگیا ہے۔ برداشت کا مادہ کم ہوتا جارہا ہے۔ ایک لڑکا اپنے ماں باپ کی ادنیٰ سی بھی نصیحت کو برداشت کرنے میں آمادہ نظر نہیں آتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو سمجھ پانے سے قاصر ہے۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی وہ ایک دوسرے سے بہت دور ہیں ۔ اجسام ایک جیسے ہیں، مگر فرق نمایاں ہے۔ ۔۔
اس خلاء کے پیچھے بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہے۔ پہلا ہے مادیت پرستی: اولاد اللہ کی طرف سے نعمت ہے۔ البتہ ان کو اگر صرف پیسوں یا مادیت کی نگاہوں سے دیکھا جائے، تو اس کا براہراست اثر والدین اور اولاد کی دوریوں میں نکل کر آئے گا۔ بیٹاالگ نفسیات کا مالک ہے۔ وہ الگ طریقے سے سوچتا ہے۔ وہ زندگی کے متعلق الگ نظریہ رکھتا ہے۔ کچھ خوبیاں اور خامیاں بھی اس کے اندر موجود ہیں ۔ اس کے باوجود والدین اپنی اولاد پر ایسا بھوج ڈالتے جس کے نیچے وہ دب کر رہ جاتے ہیں ۔ اس سے دوریوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ ماں باپ یہ نہیں سوچتے کیا یہ بھوج ڈالنا ٹھیک ہے کہ نہیں۔ وہ اپنی مثالیں دیتے تھکتے نہیں ہیں۔ وہ صرف اپنی نوکریوں کے گھن گاتے ہیں ۔ اپنی لاچاری کا رونا روتے ہیں۔ اس سے فائدہ کم لیکن نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔ دوسرا ہے موجودہ زمانہ: موجودہ زمانے میں جینے کے لئے الگ قسم کا دماغ اور طرز عمل نہایت ضروری ہے ۔ مثلاً ایک زمانے میں گورنمنٹ نوکری سب کچھ تھی۔ اس کے لئے سب کچھ داو پر لگایا جاتا تھا۔ مگر آج اس کے برعکس ہے۔ نجی اداروں میں ایک نوجوان سرکاری ملازمین سے زیادہ کماتا لیتاہے۔ عالیشان زندگی گزارتا ہے۔ دوسروں کو بھی نوکریاں فراہم کرتا ہے۔ البتہ ہمارے والدین پر سرکاری نوکریوں کا بھوت سوار ہے۔ اس لئے زمانے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تبدیلیاں لانا ضروری ہیں۔ پرانی ڈگر پر چلتے ہوئے کہی لوگ موجودہ زمانے کی دوڑ میں بہت پیچھے نہ رہ جائیں۔ تیسرا ہے رشوت خوری: ہمیں ہر روز یہ سبق پڑھایا جاتا ہیں کہ رشوت دینے اور لینے والے پر لعنت ہے۔ مگر یہاں کوئی بھی کام اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ ایک لڑکا رشوت دے کر اچھی سی نوکری حاصل کرتا ہے اور زندگی کی خوشیاں لوٹتا رہتا ہے۔ اس کو سارے لوگ عزت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ نیک لڑکا جو قیامت کے دن پر بھروسہ رکھتا ہے اور جوابدہی کا عنصر رکھتا ہے، رشوت سے پرہیز کرتے ہوئے عمر بھر محنت کش بننے کے لئے مجبور ہوجاتا ہے۔ اس کو سارے لوگ نیچی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ اس کو بےجا طعنے کھانے پڑھتے ہیں۔ گھر میں بھی یہی ہوتا ہے اور گھر سے باہر بھی۔ اس سے دوری بڑھ جاتی ہے۔ یہ لڑکا خاص کر اپنے ماں باپ کو سمجھانے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ زبان درازی بھی نہیں کرسکتا۔ چھپ رہ کر زہر کے گھونٹ پیتا رہتا ہے۔ اس طرح یہ لڑکا اپنی دنیا تعمیر کرلیتا ہے جو صرف سناٹوں اور اندھیروں کی آماجگاہ ہیں۔ چوتھا ہے سرکار کا ہاتھ: اس صورتحال کو یہاں تک پہنچانے میں سرکار کا بھی رول ہے۔ اس نے قابل لڑکوں کو ناقص پالیسی کے تحت سسٹم سے باہر رکھا اور ان پڑھ،نا اہلوں کو اعلیٰ منصب پر فائز کیا ہے! اقربا پروری کی آڑ میں اپنے گھروں کی بنیادیں مستحکم اور دوسروں کے گھروں کو ڈھایا گیا۔ اس صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک لڑکا ذہنی کوفت کا شکار نہ ہوجائے۔ وہ اپنے والدین سے بات کرنا کیوں نہ چھوڑے۔ وہ اندھیروں کا شکار کیوں نہ ہوجائے ۔ جب والدین اپنے بیٹے کو اور آس پاس کے ماحول کو سمجھنے سے قاصر ہیں،تو دوسروں سے کس بات کا گلہ کرسکتےہیں۔
پیشتر اس کے کہ حالات خراب سے خراب تر ہوں، ان ساری باتوں کا سدباب ہمیں اپنے گھروں سے شروع کرنا ہوگا۔ ماں باپ کو چاہیے کہ اپنے اولاد کو خاص کر بیٹوں کو انسان کی نگاہوں سے دیکھیں۔ ہاں! وہ بھی اپنے اولاد کا بھلا چاہتے ہیں مگر شاید بھول جاتے ہیں کہ ایک لڑکے میں بھی دل ہوتا ہے، اس کو بھی ٹھیس لگتی ہے اور ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ اس دل پر مرہم لگانے کی ضرورت ہے۔ سرکاری نوکری نہ ملے، تو نجی نوکری کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اپنا چھوٹا موٹا بزنس بھی کھولا جاسکتا ہے جس سے زندگی کی بنیادی ضروریات پوری ہوں۔ اگر کوئی مزدوری کرے، تو اس میں شرم کی کونسی بات ہے؟ اس لئے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس خلا ءکو پُر کیا جائے۔