(جموں) پارٹی قیادت سے ناراض کانگریس کے رہنما غلام نبی آزاد کو مودی حکومت کی جانب سے ایوارڈ دینے کے اعلان کے بعد چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ آیا وہ بی جے پی کا پرچم تھامنے والے ہیں؟ سوشل میڈیا پر یہ افواہ بھی گردش کرنے لگی کہ انہوں نے ایوارڈ کے اعلان کے بعد ا پناٹوئٹر بایوڈیٹا بدل دیا۔غلام نبی آزاد نے تاہم ان ‘افواہوں‘ کی سختی سے تردید کی۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا،”بعض شرپسند پروپیگنڈا کے ذریعے لوگوں میں کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خیال رہے غلام نبی آزاد کو بھارت کا اعلیٰ سیولین ایوارڈ سے نوازے جانے کے بعد مختلف حلقوں میں چمہ گوئیاں شروع ہوگئی ہیں ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم مودی کے تئیں آزاد کے نرم گوشہ اور بی جے پی سے قربت کی بناء پر انہیں یہ ایوارڈ دیا گیا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ آزاد ہاتھ کا ساتھ چھوڑ کر کنول کی خوشبوں سونگھنے کی کوشش میں ہیں ۔ سوشل میڈیا پر یہ افواہ بھی گردش کرنے لگی کہ انہوں نے ایوارڈ کے اعلان کے بعد ا پناٹوئٹر بایوڈیٹا بدل دیا۔غلام نبی آزاد نے تاہم ان ‘افواہوں‘ کی سختی سے تردید کی۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا،”بعض شرپسند پروپیگنڈا کے ذریعے لوگوں میں کنفیوزن پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔میں نے اپنے ٹوئٹر پروفائل سے نہ تو کچھ حذف کیا ہے اور نہ ہی کچھ اضافہ کیا ہے۔ پروفائل پہلے جیسا ہی ہے۔‘‘ واضح رہے سابق مرکزی وزیرغلام نبی آزاد کانگریس کے ”جی۔23 ‘‘ گروپ کے ان راکین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے سنہ 2020 میں سونیا گاندھی کو مشترکہ طور پرخط لکھ کر پارٹی میں جامع اصلاحات اور ”دوراندیش اور کل وقتی قیادت‘‘ کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی ان پر حکمراں بی جے پی سے قربت بڑھانے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ایوارڈ کے اعلان کے بعد کانگریس کے سینیئر رہنما اور سابق مرکزی وزیر جے رام رمیش نے بدھا دیب کے فیصلے کے پس منظر میں ٹوئٹ کر کے طنز کیا،”انہوں نے درست فیصلہ کیا، وہ آزاد رہنا چاہتے تھے غلام نہیں۔‘‘تاہم ایک دیگر سینیئر کانگریسی رہنما، سابق وزیر اور جی23 کے رکن کپل سبل نے ‘بھائی جان‘ غلام نبی آزاد کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا، ”یہ المیہ ہے کہ کانگریس ان (آزاد) کی خدمات کی ضرورت محسوس نہیں کرتی جبکہ قوم عوامی زندگی میں ان کی خدمات کو تسلیم کر رہی ہے۔‘‘