شاہد لطیف۔۔۔۔
جموںو کشمیر سے وابستہ چناؤی سیاست کاتذکرہ ہو اور اس میں ریاست کے سابق وزیراعلی غلام نبی آزاد کا نام نہ آئے یہ ناممکن ہے۔ اگرچہ آزاد صاحب نے اپنی سیاسی زندگی کا بیش تر حصہ بھارت کی مرکزی سیاست میں ہی گزارا ہے لیکن جموں وکشمیر میں مختصر دورِ اقتدار کے دوران انہوں نے ایک باصلاحیت، زیرک اور کام کرنے والے وزیر اعلی کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سیاست اور نظریات سے اختلاف رکھنے والے لوگ بھی انہیں نکما،کرپٹ اور بے حس سیاست دان نہیں سمجھتے۔آزاد کی تصویر کا یہ ُرخ خوش نما صحیح لیکن اسی برس اگست کے مہینے میں ان کے کانگریس پارٹی کو طلاق دینے اور جموں وکشمیر کی سیاست میں واپسی کے اعلان نے عوامی سطح پر اس تصویر کی خوش نمائی کو دھندلا دیا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ کانگریس پارٹی کی سیاست میں آزاد کئی دوسرے لیڈروں کے ہمراہ ایک بڑے عرصے سے بغاوت کی راہ پر گامزن تھے۔ جی23 کے نام سے معروف اس گروپ نے کانگریس پارٹی کو گاندھی فیملی کے مبینہ منفی اثرات سے آزاد کرنے کی حتی الوسع کوشش کی لیکن ابھی تک انہیں اس میں کامیابی نہیں ملی ہے۔ جی 23کے اندرپیدا شدہ بے چینی کی بڑی وجہ جہاں راہل گاندھی کا سینئر اراکین کے تئیں بے رخی کا رویہ ہے وہیں پر یہ لوگ کانگریس پارٹی کے تنگ ہورہے دائرے سے بھی نالاں نظر آتے ہیں۔ سیاسی طور پر بیدار عام لوگ بھی جی23 کی اس تشویش کو حق بجانب مانتے ہیں۔
کانگریس کی سب سے بڑی مخالف جماعت بی جے پی کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے اقتدار کے اندر باہر ہر جگہ فعال(Pro-Active)سیاست کی ہے لیکن اس کے برعکس راہل گاندھی صوفہ نشینی کی سیاست میں ہی منہمک نظر آئے ہیں۔لیکن”کفر ٹوٹا خداخدا کرکے“کے مصداق جوں ہی راہل گاندھی اور کانگریس کی موجودہ لیڈرشپ نے ”بھارت جوڑو مہم“ یا لانگ مارچ کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں بڑھتی ہوئی مہنگائی وغیرہ پر فعال سیاسی پرگروام ترتیب دینے کا سلسلہ شروع کیا،غلام نبی آزاد نے کانگریس پارٹی سے کنارہ کشی کرنے کا اعلان کردیا۔ شاید اسی کے مدنظر کانگریس کے ایک ترجمان اجے ماکن نے غلام نبی آزاد کے یوں اچانک کانگریس پارٹی کو خیرباد کہنے پر سخت افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ غلام نبی آزاد کانگریس پارٹی کے ایک قابل احترام لیڈر تھے اور وہ مختلف اوقات میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ غلام نبی آزاد نے ایسے وقت میں پارٹی سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا جب کانگریس پارٹی مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف مودی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہی ہے۔ ایسے وقت میں غلام نبی آزاد کو پارٹی اور عوام کی آواز بننا چاہئے تھا، یہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔اس سلسلے میں کی گئی ایک پریس کانفرنس کے دوران اجے ماکن نے کہا ”کانگریس پارٹی راہل گاندھی اور صدر سونیا گاندھی کی قیادت میں کانگریس پارٹی کارکنان کے ساتھ سڑک پر مہنگائی، بے روزگاری اور تقسیم کاری کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، ہم نے مہنگائی کے خلاف قومی ریلی دہلی کے رام لیلا میدان پر رکھی ہے اور7ستمبر کو’ ’بھارت جوڑو یاترا“ شروع ہونے جا رہی ہے۔ یہ افسوسناک ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ بی جے پی سے ہم براہ راست حالت جنگ میں ہیں، غلام نبی آزاد نے کانگریس کا ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔“ اس ضمن میں کانگریس کے جے رام رمیش کی جانب سے آزاد پر براہ راست حملہ کیا گیا۔ایک وقت میں مبینہ جی 23 کے ممبر گردائے جانے والے جے رام رمیش کا کہنا تھا کہ کانگریس میں جی 23 کا کوئی وجود نہیں ہے اور جن لوگوں نے آج تک آر ایس ایس یا بی جے پی کے خلاف اپنی زبان سے ایک لفظ تک نہیں کہا ہے وہی لوگ میچ فکسنگ کرتے ہوئے کانگریس چھوڑ رہے ہیں۔اس درمیان کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ اور سینئر لیڈر سندیپ دیکشت نے غلام نبی آزاد کے نام ایک خط جاری کیا ہے۔ انھوں نے اس خط میں لکھا ہے کہ ”ہم نے آپ کے ساتھ مل کر پارٹی کے لیے جو ایشوز اٹھائے تھے، اس میں ہم نے اصلاح کی بات کی تھی، نہ کہ بغاوت کی۔ کانگریس کی مضبوطی کی بات کی تھی، نہ کہ پارٹی سے الگ ہونے کی۔“ انھوں نے لکھا ہے کہ ”ہمارے عظیم ملک میں ہمارے مجاہدین آزادی نے جو جدوجہد کی ہے، وہی کانگریس کومضبوطی دینے کے لیے کی جانی چاہیے تھی، اور اس کے لیے پارٹی میں رہنا ضروری تھا۔ لیکن پارٹی سے باہر ہونے کا مطلب ہے کہ ان پالیسیوں اور اس سسٹم کو مضبوط کرنا ہے جس کے لیے ہم نے قدم اٹھائے تھے۔“
کانگریس پارٹی غلام نبی آزاد کے خلاف کیا کہتی ہے اس سے ماورا جب عوامی سطح پر آزاد صاحب کے حالیہ فیصلوں کو پرکھا جاتا ہے تو وہاں کئی قسم کی آرا ءنظر آتی ہیں۔ دانشوروں کا ایک طبقہ مانتا ہے کہ آزاد صاحب دراصل ’بی جے پی کی بی ٹیم ‘کی حیثیت سے میدان میں اُتارے گئے ہیں۔ اس طبقے کے مطابق بی جے پی نے2019ءسے کافی کوششیں کیں کہ جموں وکشمیر میں ”ہندو وزیراعلی“ کا خواب شرمندہ تعبیر کیا جاسکے لیکن ہر قسم کے حربے آزمانے کے باوجود انہیں یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت نے روز اوّل سے پیپلز الاینس فار گپکار ڈکلریشن یعنی پی اے جی ڈی کی سخت مخالفت کی ہے اور اسے ”گپکار گینگ“ تک کا نام دیا گیا۔ سیاسی مبصرین کا مانیں تو فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی وغیرہ پر مشتمل اسی سیاسی اتحاد کو نیچا دکھانے کےلئے سجاد لون سے لیکر الطاف بخاری تک کو کام میں لایا گیا لیکن سب طرح کی کاوشوں کے باوجود یہ اتحاد قائم ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ دراصل بی جے پی گپکار اتحاد کو کشمیر میں اپنے لئے کوئی خطرہ تصور نہیں کرتی ہے بلکہ اسے چناب اور پیر پنچال خطے میں اس اتحاد سے ممکنہ خطرہ ہے۔ بی جے پی جانتی ہے کہ اگر جموں وکشمیر میں اکثریت لاکر اپنا وزیراعلی لانا ہے تو اس کےلئے اس جماعت کو ڈوڈہ، کشتوار،بھدرواہ،راجوری، پونچھ ،رام بن اور اودھمپورا ضلاع کے مسلم اکثریتی علاقوں سے بھی نشستیں حاصل کرنا ہوں گی۔ماضی میں بی جے پی اس مقصد میں خاصی کامیاب رہی ہے اور ان علاقوں میں پولرائزیشن کے بعد اسے کافی نشستیں حاصل ہوئیں۔ اس وقت پولرائزیشن کا ہدف پی ڈی پی کے ذریعے پورا کیا گیا جس نے مذکورہ بالا علاقوں کے اندر بی جے پی مخالف مسلم اکثریتی ووٹ کو تقسیم کیا اور یوں یہ سیٹیں بی جے پی کے پالے میں آگئیں۔ اس بار چونکہ پی ڈی پی اورنیشنل کانفرنس ، کانگریس پارٹی کے ساتھ براہ راست نہ سہی اتحاد ہے اسلئے جموں خطے کے مذکورہ بالا علاقوں میں بی جے پی ووٹ بَٹ جانے کاہدف شاید حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔مبصرین کی مانیں تو غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ بی جے پی نے اپنا وزیر اعلی لانے کی سوچ کو فی الوقت درکنار کیا ہے اورجموں خطے میں غلام نبی آزاد کو اُبھرنے کا موقع تفویض کیا گیا ہے۔
آزاد کے جموی علاقوں میں آمد سے کچھ بھی نہ ہو لیکن ووٹ ضرور بَٹ جائیں گے جس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ عوامی حلقوں کے اندر آزاد کے متعلق’ بی جے پی کا مہرہ‘ ہونے کی باتیں ہورہی ہیں۔ اسی سوچ کی عکاسی جموں سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور معروف تجزیہ نگار ظفر چودھری کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ’ ’جموں وکشمیر میں سبھی سیاسی جماعتیں نئی دہلی کی پراکسی ہی تو رہی ہیں۔فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے وہ کشمیر میں کانگریس کے ایجنڈے کی آبیاری کرتے تھے اور اب وہ بی جے پی کے عزائم کو پورا کر رہے ہیں۔“
ظفر کہتے ہیں کہ آزاد کا پس پردہ ایجنڈا جو بھی ہو، لیکن اُن کی جموں وکشمیر کے سیاسی منظرنامے پر دھماکہ خیز واپسی سے بی جے پی کو نہیں بلکہ علاقائی پارٹیوں کو زیادہ نقصان ہوگا۔کانگریس چھوڑتے وقت غلام نبی آزاد کا بیانیہ صرف کشمیرمیں نہیں بلکہ قومی سطح پر سیاسی زلزلہ تھا۔ کیونکہ وہ کانگریس کی فیصلہ ساز ورکنگ کمیٹی کے دیرینہ رکن ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے مقتدررہنماو¿ں میں شامل تھے۔یہی وجہ ہے کہ کانگریس نے اپنے ردعمل میں آزاد کو’ ’بی جے پی کا ایجنٹ“ قرار دیا ہے اور اکثر سیاسی حلقے بھی انھیں کشمیر میں نریندر مودی کی’ ’پراکسی“ قرار دے رہے ہیں۔ کانگریس سے الگ ہوجانے کے بعد جموں میں اپنے پہلے عوامی جلسے میں آزاد نے جس طرح سے کشمیریوں کو نظر انداز کرکے جموں والوں کے مسائل ہی پر فوکس کیانیز بارہ مولہ میں جب موصوف نے کہا کہ وہ دفعہ370 اور35 اے کی بحالی نہیں کراسکتے، تو کم ا ز کم کشمیر خطے کی حد میں کانگریس پارٹی کے الزامات کو تقویت ملی ہے۔پھر اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری جن پر بی جے پی کی بی ٹیم ہونے کے الزامات لگتے رہے ہیںنے جس غصے اور جھنجلاہٹ کے ساتھ غلام نبی آزاد پر الزامات کی بوچھاڑ کی، بھی بقول ایک سیاسی مبصردال میں کچھ کالا ہونے کی جانب اشارہ ہے۔ خود آزاد صاحب نے کانگریس اور دوسروں کے ان الزامات کا جواب یہ کہہ کر دیا ہے کہ کشمیر میں کوئی بھی مرکزی جماعت حکمرانی کر ہی نہیں سکتی اور یہ کہ ان کے بی جے پی کی حمایت کرنے یا اس کا ساتھ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ معروف جرنلسٹ برکھا دت سے باتیں کرتے ہوئے آزاد کا کہنا تھا کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں اُن کی تعریف کرتے ہوئے جو آنسو بہائے وہ ان کے لئے نہیں تھے۔ انہوں نے سوال کیا کہ مودی جی کی ان کے لئے تعریفی کلمات کہنا اگر ان کا گناہ ہے تو جب پارلیمان میں راہل گاندھی نے خود جاکر مودی جی کو گلے لگایا تھا کیا وہ گناہ نہیں تھا؟ انہوں نے کہا کہ ٓسام کے سابق وزیراعلی گوگوئی اور کئی دوسرے کانگریس لیڈروں کو بھی بی جے پی حکومت نے پدمابھوشن ایواڑ دیا لیکن سوال صرف غلام نبی آزاد پر اُٹھائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی سیاست اور نظریات کے ساتھ مرتے دم تک رہیں گے کیونکہ یہ ان کی شردھا ہے۔اس انٹرویو میں آزاد نے یہ تاثر بھرپور انداز میں دینے کی سعی کی کہ وہ کسی بھی صورت میں بی جے پی کے ساتھ نہیں ہیں لیکن باتوں ہی باتوں میں باقی سیاسی قوتوں سے بھی دوری اختیار کرنے کا تاثر بھی چھوڑ گئے جس کا مطلب یہی ہوگا کہ وہ فی الحال سولوفلائٹ کے ہی قائل ہیں۔
کہتے ہیں کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ غلام نبی آزاد کو بھی عشق کے ان امتحانات سے گزرنا پڑے گا۔وقت کا پہیہ بے باک بھی ہے اور پُر خطر بھی۔ آزاد کس یا کس کے مشن پر ہیں یہ وقت ثابت کرہی دے گا لیکن بقول ایک سیاسی لکھاری ضلع ڈوڈہ کے دور دراز علاقے بھلیسا سے تعلق رکھنے والے غلام نبی بٹ نے کانگریس میں آکر اپنا تخلص” آزاد“ رکھ تو دیا لیکن وہ کئی دہائیوں تک اس جماعت میں” غلام“ ہی رہے۔اب موقع ہے کہ وہ ثابت کردیں کہ وہ حقیقت میں آزاد ہوچکے ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ موصوف آزاد سیاست کریں جس میں جموں وکشمیر کے سارے خطوں ، سارے سماجی طبقات کی اُمنگوں اور آرزووں کی ترجمانی ہو بصورت دیگر ان کی یہ دوسری سیاسی اننگ بھی ان کے پہلے والے دور غلامی کی توسیع کے طور پر ہی یاد رکھی جائے گی۔