ربِ کریم کی کائنات میں اگر سب سے قمیتی یا سرمایہ دار چیز دیکھی جائےتو وہ صحت ہے۔ صحت ایک ایسی نعمتِ عظمیٰ ہے جس کا بدل کسی حسین سے حسین بازار میں نہیں مل سکتا ہے۔ بلکہ اسی کی بدولت کائینات میں چہل پہل روان دواں ہے۔ بڑے سے بڑے کارنامے صحت کے دم سے ہی وجود میں آئے ہیں۔ ترقی اگر چہ آج اپنی قسمت پر نازان ہےمگر اس کےپیجھے بھی اچھی اور تندرست صحت کا راز پنہاں ہے۔ صحت کو اگر دنیا کی رونق اور زیبائش کہا جاے تو غلط نہیں ہوگا، کیوں کہ ہر فعل کو اس کے انجام تک لانے کے لیے اچھی صحت درکار ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر چاہے خوشی ہو یا غم ایک سالم صحت کی اشد ضرورت پڑجاتی ہے۔ زندگی کو نشیب و فراز کے مدار میں قائم رکھنے کیلے صحت بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ مطلب یہ کہ زندگی کا لطف اور اس کے حسین مناظروں سے سرشار ایک صحت یاب انسان ہی ہوسکتا ہے۔
کشمیری زبان کا ایک مشہور قول ہے کہ (زو اور تہ جہان اور) ۔جس کی تشریح میں یہی حاصل ہوتا ہے کہ صحت کے بنا ہر خوبصورت چیز اور ہر ذائقہ سے لبریز ضیافت عجیب اور بے لذت لگتی ہے۔اگر ایک انسان کے پاس زندگی کی ہر راحت بخشنے والی چیز میسر ہوگی لیکن ایک اچھی صحت سے محروم ہو تو سکون اور چین کے خواب تک نہیں دیکھ سکتا۔ اب سوال ہے کہ اس صحت کو بگاڑ نے والا کون ہے؟ جواباً یہی سنے کو آئے گا کہ انسان کی لاپرواہی اور لا پرہیزی۔ انسان طرح طرح کے غلط اسباب کا استعال کرتا رہتا ہے جن میںسے ایک جرم کے بام پر پہنچا ہواہے۔ وہ ہےتمباکو نوشی! یہ ایک ایسا فعل ہے کہ جس کے کرنے میں انسان کو عار محسوس نہیں ہوتی۔ قرنہِ قدیم میں اگر چہ دیواروں اور پردے کے آنچلوں میں یہ بُرا کام بپا ہورہا تھا لیکن آج جس زمانے کی جبین پر ترقی کا داغ مضمر ہوگیا ہے وہاں اس بُرے کام کی بھی ترقی خوب ہوگی ہے۔ سماج کی ہر کھڑکی سے تمباکو کا زہریلا دھواں نکل رہا ہے۔ آپ دیکھیں دفتروں میں، دکانوں پر، بازاروں میں اور المیہ یہ کہ جہاں اس تمباکو نوشی کے مضر نقصانات کی ریسیرچ ہورہی ہوتی ہے وہاں بھی یہ کام بہت آگے نکل چکا ہے۔ ہمارا مطلب ہے اسپتال اورا سکول بھی اس فعلِ بد سے محفوظ نہیں رہے ہیں۔
ہمارے معاشرے کے ہر عمر کا طبقہ اس آفت میں گرفتار ہوچکا ہے۔ اور اس کا نتیجہ اسپتالوں میںداخل مریضوں سے عیاں ہے۔ ہزاروں انسان کنسر ، مرضِ دل، پھپھیڑوں کا کنسر اور قسم قسم کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ یہ زہر ہم خود ہی اپنے پیسوں سے اور اپنے ہاتھوں سے پی رہے ہیں۔ اور پھر گلہ شکوہ مقدر اور قسمت سے ہورہا ہے۔ اس تمباکو نوشی کو ہمارے ڈاکٹر صاحبان ایک جملہ میں قلم بند کررہے ہیں: smoking is a sweat pioson ۔ جو آج شوق سے اکثر مرد و زن پی رہے ہیں۔
ہمارے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ صحت کو غنیمت سمجھو بیماری سے پہلے۔ کیوں کہ جب بیماری گیر لیتی ہے تو زندگی ضعیف اور بے بس ہوجاتی ہے۔انسان معزور بن جاتا ہے۔ پھر نا مقصدِ حیات اور نا ضرورتِ حیات حاصل ہوتی ہے۔ اور نہ بندگی کا ڈھنگ رہ جاتا ہے۔اسی لیے اگر زندگی کو بنانا اور جینا ہے تو اپنی صحت کا پورا پورا خیال رکھنا ضروری ہے۔ یہ خدا کی طرف سے عطا ہے۔قدر اورشُکر پر اللہ تعالی دی ہوئی نعمت میں اضافہ کرتا ہے اور نا قدری اور نا شکری پر چھین لیتا ہے۔ ہم سب اپنے گھر کے، اپنے معاشرے کے ذمہ دار ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ باپ اپنی اولاد کے سامنے اور استاد اپنے شاگرد کے سامنے تمباکو نوشی کر رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سگریٹ پینے والے کو اتنا نقصان نہیںجتنا کہ سامنے اور ارد گرد بیٹھنے والوں پر پڑجاتا ہے۔یہ طوفان آج ہر گھر کو اپنی آغوش میں لیے بیٹھی ہے۔۔۔۔