پیر کی شام کوسرینگرکے گاسی خاندان پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب ان کا آشیانہ ہی جہلم میں ڈوب گیا۔تفصیلات کے مطابق شام کو تیز ہواؤں اور بارش کے دوران گاسی کنبے کا آشیانہ جب ڈوبنے لگا تو اس دوران آس پاس کے ہاوس بوٹ والوں نے موقع پر پہنچ کر اس میں خواتین سمیت کنبے کے آٹھ آفرادکو صحیح سلامت باہر نکالا۔اس دوران ہاوس بوٹ کے مالک غلام قادر گاسی کے مطابق ہاوس بوٹ ڈوبنے کےآس پاس موجود افراد نے موقع پر پہنچ کر اس سے سازوسامان نکالنے میں مدد کی۔گاسی کے مطابق لگ بھگ ان کا پچیس لاکھ کا نقصان ہوا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایل جی انتظامیہ سے بارہا گزارش کی تھی کہ انہیں دوسری جگہ منتقل کیا جائے تاکہ وہ خوشحال زندگی گزار سکیں لیکن انتظامیہ نے انکی ایک نہ سنی۔وہیں انکے مطابق حکومت نے ان ہاوس بوٹس کی مرمت پر بھی پابندی لگا کر رکھی ہے جس کے باعث یہ خستہ ہو کر ڈوب جاتے ہیں۔
وادی کشمیر کی سیاحتی صنعت میں ہاوس بوٹ کی اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی ایک خاصی تعداد ہر سال وادی کشمیر کا دورہ کرتی ہے جن میں سے ہزاروں سیاح پانی پر بنایے گئے گھر نما ہاوس بوٹ میں کئی دن گزارنا پسند کرتے ہیں۔تاہم حکومت کی عدم توجہی کے باعثِ اب رفتہ رفتہ ہاوس بوٹس کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔اس کی وجہ انکا ڈوب جانا اور خستہ ہونا ہے۔وادی کشمیر میں 3500 ہاوس بوٹ موجود تھے تاہم گزشتہ دہائیوں میں ان میں خاصی کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اس وقت 900 کے قریب ہاوس بوٹ نگین اور جھیل ڈل میں موجود ہیں جبکہ اسکے علاوہ دریائے جہلم میں بھی ہیں۔اگرچہ 2010میں تب کی سرکار نے ڈل جھیل میں ایک” ڈاک یارڈ“قائم کیا تھا تاکہ خستہ ہاوس بوٹس کی مرمت کی جاتی تاہم اس کو کبھی بھی فعال نہیں بنایا جاسکا۔اسکے بعد 2021ء میں ایل جی منوج سنہا نے ہاوس بوٹس کی مرمت کےلیے ہاوس بوٹ پالیسی بنائی اور انکی مرمت کےلیے ڈاک یارڈ میں مرمت کے حوالے سے کچھ بنیادی اصول وضع کیے گئے تاہم یہ پالیسی بھی بے نتیجہ ہی ثابت ہوئی کیونکہ ہاوس بوٹ مالکان کو لکڑی حاصل کرنے کےلیے پہلے عدالت سے اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔
کشمیر ہاؤس بوٹ اونرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین منظور پختون کہتے ہیں کہ ’’ہمیں ہاؤس بوٹس کی مرمت، تزئین و آرائش یا دوبارہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے، ہاؤس بوٹس پر کسی بھی کام کے لیے عدالت جانا ضروری ہے۔‘‘ان کے مطابق” ہمیں کسی بھی تزئین و آرائش یا تعمیر نو کے کام کے لیے عدالت سے اجازت لینی پڑتی ہے اور یہ ایک طویل عمل ہے۔ مثال کے طور پر، نگین جھیل کی ہاؤس بوٹس، جو پچھلے سال آگ کی واردات میں خاکستر ہو گئی تھیں، ابھی تک وہ دوبارہ تعمیر نہیں کی جا سکی۔“ اس وقت ایسے سیکڑوں ہاوس بوٹس کی مرمت کی ضرورت ہے تاہم پابندی کے باعث ہر سال ایک ایک کر کے یہ ہاوس بوٹس بوسیدہ ہو کر ڈوب رہے ہیں۔