ایک زمانہ تھا جب امریکی صدور کے نظریوں (Doctrines) کا بڑا چرچا تھا۔ لیکن اس وقت سرد جنگ جاری تھی۔ سابق سوویت یونین امریکہ اور پورے یورپ کے لئے خطرہ بنا ہوا تھا۔ کمیونزم کا راستہ روکنے کیلئے امریکہ اور یورپ سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ افریقہ اور ایشیا میں بھی کمیونزم کے اثرات محسوس کئے جا رہے تھے۔ لا طینی امریکہ کے کچھ ممالک میں بھی کمیونزم اپنی جڑیں مضبوط کر رہا تھا۔ معروضی حالات کے ساتھ ساتھ امریکی صدر اپنے نظریے پیش کرتے رہے جن کا بڑی تفصیل سے جائزہ لیا گیا اور ان پر مدتوں بحث جاری رہی۔ ہم ذیل میں امریکی صدور کے معروضی حالات کے مطابق یہ نظریے پیش کئے جاتے رہے اور ان پر مدتوں بحث جاری رہیٹرومین نے 1947 میں اپنا نظریہ پیش کیا جو ’’ٹرومین نظریہ‘‘ کے نام سے جانا گیا اس نظریے کی بنیادامریکہ کی خارجہ پالیسی کو ایک نئے زاویے سے روشناس کرانا تھا ،اُن مشہور نظریوں کے بارے میں اپنے قارئین کو بتائیں گے۔
1- ٹرومین نظریہ (Truman Doctrine)
ہیری ایس ٹرومین امریکہ کے 33ویں صدر تھے۔ وہ روز ویلٹ کے انتقال کے بعد 1945ء سے 1953ء تک اس عہدے پر متمکن رہے۔ جس وقت انہوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالا تو جنگ عظیم دوم خاتمے کے قریب تھی۔ ٹرومین نے 1947 میں اپنا نظریہ پیش کیا جو ’’ٹرومین نظریہ‘‘ کے نام سے جانا گیا۔
اس نظریے کی بنیاد (Cornerstone) امریکہ کی خارجہ پالیسی کو ایک نئے زاویے سے روشناس کرانا تھا۔ جنگ عظیم دوم میں روس امریکہ کا اتحادی تھا لیکن اب امریکہ اور یورپ کو روس سے سخت خطرہ تھا کیونکہ وہ سیاسی اور جغرافیائی طور پر اپنے اثرو نفوذ میں اضافہ کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ روسی توسیع پسندی بھی بہت بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ اس نظریے کے مطابق امریکہ کو ان قوموں کی بھرپور مدد کرنی چاہئے جو کمیونزم کے خطرے سے دوچار ہیں۔ یہ نظریہ امریکی خارجہ پالیسی کا محور بن گیا اور پھر 1979ء میں نیٹو (Nato) وجود میں آیا۔ یہ فوجی اتحاد تھا جس کا مقصد کمیونسٹ جارحیت کا مقابلہ کرنا تھا۔ یہ اتحاد اب بھی قائم ہے۔ ٹرومین کا موقف تھا کہ چونکہ کمیونسٹ ملکوں پر دبائو ڈالتے ہیں اور انہیں ہر وقت خوف میں مبتلا رکھتے ہیں اس لیے یہ حکومتیں عالمی امن کیلئے خطرہ ہیں۔ اس کے علاوہ امریکہ کی داخلی سلامتی بھی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ہنری ٹرومین نے یونان کی خانہ جنگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ اگر یونان اور ترکی کی مدد نہ کی گئی تو لازمی طور پر وہ کمیونزم کی لپیٹ میں آجائیں گے اور اس سے پورے خطے کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چونکہ یونان اور ترکی تاریخی طور پر ایک دوسرے کے حریف ہیں اس لیے ان دونوں ممالک کی برابری کی سطح پر مدد کرنی چاہیے۔
اس نظریے کے ناقدین کا کہنا تھا کہ اس وقت ترکی اور یونان جمہوریت سے کوسوں دور ہیں اور 1949ء کے موسم بہار میں انہیں روس کی طرف سے کسی تخریب کاری کا کوئی خطرہ نہیں۔ مورخ ایرک فوز کا موقف تھا کہ اس نظریے نے کمیونزم مخالف حکومتوں کی امداد کیلئے ایک مثال قائم کردی اور اس میں اس چیز کو بھی مدنظر نہیں رکھا گیا کہ کوئی ملک جمہوری ہو یا غیر جمہوری لیکن اگر وہ کمیونزم کی مخالفت پر کمربستہ ہے تو امریکہ کو اس کی مدد کرنی چاہیے۔ کئی برسوں تک برطانیہ یونان کی حمایت کرتا رہا لیکن اب وہ خود دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور اب وہ یونان میں مداخلت کم کرنے پر مجبور ہو گیا۔ فروری 1947 ء میں برطانیہ نے امریکہ سے درخواست کی کہ وہ یونانی حکومت کی مدد کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ 1952ء میں یونان اور ترکی نے نیٹو میں شمولیت اختیار کر لی تاکہ اپنے داخلی استحکام کی ضمانت حاصل کی جا سکے۔
2- آئزن ہاور نظریہ (Eisenhower Doctrine )
آئزن ہاور امریکہ کے 34ویں صدر تھے۔ ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے تھا۔ وہ 1953ء سے 1961ء تک امریکی صدرکے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کی تاریخ میں صرف روز ویلٹ ایسے صدر گزرے ہیں جو تین بار صدارت کے عہدے پر متمکن ہوئے۔ امریکی آئین کے مطابق کوئی بھی شخص دو بار سے زیادہ امریکی صدر نہیں بن سکتا۔
آئزن ہاور نے بھی اپنا نظریہ پیش کیا اور اس کے حق میں دلائل بھی دئیے۔ انہوں نے اپنا نظریہ 5جنوری 1957ء کو پیش کیا۔ اس نظریے کی رو سے آئزن ہاور نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے بارے میں کانگریس کو ایک خصوصی پیغام دیا۔ آئزن ہاور کے مطابق مشرق وسطیٰ کا کوئی بھی ملک امریکہ سے فوجی اور معاشی مدد کی درخواست کر سکتا ہے۔ اگر اسے مسلح جارحیت کا خطرہ درپیش ہو۔ اپنے نظریے میں روسی جارحیت کی طرف اشارہ کیا گیا اور کہا گیا کہ امریکی فوجیوں نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ وہ ایسی قوموں کی علاقائی سلامتی اور سیاسی آزادی کے تحفظ کیلئے مدد کریں گی۔ اگر ان قوموں کو عالمی کمیونزم سے خطرہ ہوگا۔ ’’عالمی کمیونزم‘‘ نے اس نظریے کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ پہلے عالمی کمیونزم کی جگہ روسی فوجی کارروائی کی بات کی جاتی تھی۔
بہت سے عرب ممالک نے اس نظریے کو ’’شفاف ہتھیار‘‘ (Transparent Ploy ) سے تعبیر کیا جس کا مقصد مشرق وسطیٰ میں یورپ کا اثرو نفوذ بڑھانا تھا اورجمال عبدالناصر کی عرب قوم پرستی کو روکنا تھاجو مغرب کے غلبے کے خلاف تھی۔ شام نے اس نظریے کی مذمت کی اور کہا کہ دراصل یہ نظریہ امریکہ کے سامراجی کردار کو بڑھاوا دے گا۔ لبنان کے 1958ء کے بحران اور پھر امریکی سینیٹرز کے یہ الزامات کہ کمیونزم کے خطرے کے حوالے سے مبالغہ آرائی کی جا رہی ہے‘ آئزن ہاور نے نجی محفلوں میں اس بات کا اقرار کیا کہ اس کے نظریے کا اصل مقصد عرب قوم پرستی کو روکنا ہے۔
فی الحقیقت اس نظریے کا مقصد ایک ممکنہ جنگ کو روکنا تھا اور اس کی وجہ سوویت یونین کی سویز بحران کے بعد مصر کے معاملات میں مداخلت تھی۔ سویز جنگ کے دوران امریکہ نے اپنے اتحادیوں برطانیہ اور فرانس کے کردار کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ اصل میں برطانیہ اور فرانس کے زوال کے بعد خطے میں طاقت کا خلا(Power vacuum) پیدا ہو گیا تھا۔ آئزن ہاور کا خیال تھا کہ صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے بہت مضبوط پوزیشن کی ضرورت تھی جسے مصر کے جمال عبدالناصر نے مزید پیچیدہ بنا دیا تھا جو بڑی تیزی سے طاقت میں اضافہ کر رہے تھے اور بڑی مہارت سے روس اور امریکہ کو ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی پر تیار کر رہے تھے۔ انہوں نے مثبت غیر جانبداری ( Positive Neutrality) کا موقف اپنا رکھا تھا اور دوسری طرف روسیوں سے مدد بھی حاصل کر رہے تھے۔ اس نظریے کا بنیادی مقصد ہی یہی تھا کہ عرب حکومتوں کو صدر ناصر کے سیاسی کنٹرول کا متبادل فراہم کیا جائے۔ انہیں استحکام دیا جائے اور کمیونزم کے اثرو نفوذ کو روکنے کیلئے صدر ناصر کو تنہا کر دیا جائے۔
یہ مقصد ناکام ہو گیا کیونکہ 1959ء تک صدر ناصر بہت طاقت حاصل کر چکے تھے۔ اس اثنا میں صدر ناصر کے سوویت یونین سے تعلقات خراب ہو گئے جس کے بعد امریکہ نے صدر ناصر کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیلی کر لی۔امریکی انتظامیہ نے یہ بھی محسوس کیا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مستقبل کی خارجہ پالیسی پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔ خطے میں تیل کے بہت ذخائر تھے جس کی امریکہ کے اتحادیوں کو ضرورت تھی۔ آئزن ہاور کے دیرینہ اتحادی یعنی برطانیہ اور فرانس کے خلاف نہر سویز بحران کے دوران آئزن ہاور نے جو احتجاج کیا تھا‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ مشرق وسطیٰ میں صرف امریکہ ہی مغربی طاقت ہے۔ آئزن ہاور نے امریکہ کے تیل کی حفاظت کے بارے میں کہا کہ یہ خطرے میں ہے کیونکہ سوویت یونین نے طاقت کے خلاکو پر کر دیا تھا۔ بہرحال اس نظریے کے بعد مشرق وسطیٰ میں فوجی ایکشن کا بوجھ امریکہ کے کندھوں پر آن پڑا۔
3- کینیڈی کا نظریہ ( Kennedy Doctrine)
صدر جان ایف کینیڈی امریکہ کے مقبول ترین صدور میں سے ایک تھے۔ ان کا تعلق ڈیمو کریٹک پارٹی سے تھا۔ وہ امریکہ کے 35ویں صدر تھے۔ صدر کینیڈی نے ہیمی سفیئر میں کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کو ختم کرنے کیلئے مناسب اقدامات کا فیصلہ کیا۔ ان کے نظریے کی بنیاد بھی یہی تھی کہ کمیونزم کو روکو ( Contain Communism)صدر کینیڈی بڑے ذہین اور معروضی حالات کا ادراک رکھتے تھے۔ لاطینی امریکہ کے ممالک میں کمیونزم اپنی جڑیں کیسے مضبوط کر سکتا ہے انہیں اس بات سے مکمل آگاہی تھی۔ سرد جنگ (Cold War ) کو جاری رکھنا ضروری تھا اور اس کے لیے روس کو روکنا تھا۔ بس مقصد یہی تھا کہ کمیونزم کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ کینیڈی کا نظریہ آئزن ہاور اور ٹرومین کے نظریوں کی توسیع تھی۔ صدر کینیڈی کے نظریے کے مطابق امریکہ اس ملک کی مدد کرے گا جس کی سلامتی کو خطرہ ہوگا۔ اس کے علاوہ جس ملک کو ضرورت ہوگی اس کی معاشی مدد بھی کی جائے گی۔ نظریے کے مطابق صدر کینیڈی نے لاطینی امریکہ کے ممالک سے درخواست کی کہ وہ سماجی تبدیلی کیلئے کام کریں۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ صدر کینیڈی خارجہ پالیسی کے حوالے سے خود اپنے سیکرٹری آف سٹیٹ تھے۔ انہوں نے خارجہ پالیسی کے ہر پہلو پر خوب غور کیا اور جو کچھ ہو رہا تھا انہیں اس کے بارے میں بھی سب علم تھا۔
4- نکسن کا نظریہ ( Nixon Doctrine)
امریکی صدر رچرڈ نکسن کا نظریہ بھی بڑا مشہور ہوا اس پر بڑی بحثیں ہوتی رہیں۔ نکسن امریکہ کے 37 ویں صدر تھے اور ان کا تعلق ری پبلکن پارٹی سے تھا۔ وہ 1969ء سے 1974ء تک امریکہ کے صدر رہے۔ اس سے پہلے وہ 1953ء سے 1961ء تک امریکہ کے نائب صدر رہے۔ ان کی شہرت کی دو وجوہات تھیں۔ ایک ویت نام جنگ اور دوسری واٹر گیٹ سکینڈل۔ ان کے نظریے کو گوام نظریہ (Guam Doctrine) بھی کہا جاتا ہے کیونکہ صدر نکسن نے یہ نظریہ 25جولائی 1969ء کو گوام میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پیش کیا تھا۔ پھر 3نومبر 1969ء کو انہوں نے رسمی طور پر اپنے نظریے کو ایک تقریر میں پیش کیا۔ رچرڈ نکسن نے جو نظریہ پیش کیا اس نے امریکہ کے سیاستدانوں اور مدبروں کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ نکسن نے کہا کہ امریکہ اپنے دوستوں کے دفاع کے سلسلے میں ان کی مدد کرے گا لیکن دنیا کی آزاد قوموں کے دفاع کی ذمہ داری نہیں لے گا۔ مطلب یہ تھا کہ ہر اتحادی ملک اپنے دفاع کا خود ذمہ دار ہوگا۔ البتہ اگر اسے کسی ایٹمی ملک کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہوگا تو پھر امریکہ اس کا تحفظ کرے گا اور اس سلسلے میں بھی پہلے امریکہ سے درخواست کی جائے گی۔
جس وقت نکسن امریکی صدارت کے منصب پر فائز ہوئے اس وقت امریکہ ویت نام کی جنگ میں پھنسا ہوا تھا۔ اس جنگ میں ویت نام کے لاکھوں افراد ہلاک ہو گئے جبکہ 30ہزار کے قریب امریکی فوجی بھی مارے گئے۔ 1969ء تک امریکی عوام یہ رائے دے چکے تھے کہ ویت نام کی جنگ ختم ہونی چاہیے۔ مئی میں سروے ہوا جس کے مطابق 56فیصد امریکیوں نے ویت نام جنگ کے خاتمے کے حق میں فیصلہ دیا اور کہا کہ ویت نام فوجیں بھیجنے کا فیصلہ غلط تھا۔ 1968ء کی انتخابی مہم میں انہوںنے یہ نعرہ لگایا تھا ’’امن عزت کے ساتھ‘‘ (Peace with honour ) لہٰذا اب ان کیلئے ضروری ہو گیا تھاکہ وہ ویت نام مسئلے کا حل نکالیں۔ اس کو رچرڈ نکسن نے (Vietnamization) کا نام دیا اور ویت نام دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ شمالی ویت نام اور جنوبی ویت نام۔اس نظریے نے اس بات کو مسترد کر دیا کہ ویت نام پانچ لاکھ فوجیوں کو بھیجنا درست تھا۔ صاف لفظوں میں کہا گیا کہ یہ غلط فیصلہ تھا۔ رچرڈ نکسن نے یہ بھی کہا امریکہ کو اپنے معاہدوں سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔ امریکہ نے سعودی عرب اور ایران کو علاقائی استحکام کے جڑواں ستون قرار دیا۔ اس نظریے کے بعد امریکہ نے خلیج فارس میں اپنے اتحادیوں کو بھاری اسلحہ فراہم کرنا شروع کر دیا۔ اس نے بعد میں کارٹر نظریے کی راہ ہموار کی۔ بعد میں پھر خلیجی جنگ اور عراق کی جنگ میں امریکہ نے براہ راست فوجی مداخلت شروع کی۔