امت نیوز ڈیسک //
پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی نے بدھ کو کہا کہ حکومت جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی ہے اور اب جموں خطے میں پھیل رہی ملی ٹینسی اس کی سب سے بڑی ناکامی ” ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں کے سدھر اعلاقے میں بدھ کی صبح ہونے والے تصادم میں ، جہاں چار جنگجو مارے گئے، نے جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے حکومتی دعووں کو جھوٹا قرار دیا ہے۔ محبوبہ نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے جموں و کشمیر سے عسکریت پسندی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہے۔ لیکن ، آج جموں میں بھی ملی ٹینسی ہے جو اس کی سب سے بڑی ناکامی
ہے”۔
انہوں نے کہا کہ یہ مایوس کن ہے کہ اب عسکریت پسندی جموں خطے میں پھیل چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ” و (حکومت) عسکریت پسندی پر قابو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں”۔
پی ڈی پی سربراہ نے یہ بھی دعوی کیا کہ حکومت مرکزی علاقے میں کانگریس کی بھارت جوڑو یا تر آکوروکنے کے لیے کو وڈیاملی ٹینسی جیسے بہانےبنا سکتی ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں جمہوریت کو ختم کر دیا گیاہے۔لوگوں کے بنیادی حقوق جیسے اپنے اظہار رائے کا حق کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اگر کوئی بات کرتا ہے تو اسے گر فتار کر لیا جاتا ہے، چاہے وہ صحافی ہو یا عام آدمی۔ سیاست دانوں پر ای ڈی یاد دیگر ایجنسیوں کے ذریعے دباؤ ڈالا جاتا ہے اور انہیں اپنا کر دار ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی قیادت میں بھارت جوڑ دیا ترا پر محبوبہ نے کہا کہ جمہوریت اور سیکولر ازم کو بچانے کے لیے کسی ایسے شخص کے ساتھ کھڑا ہونالازمی ہے اور ”ہمارا فرض ” ہے۔ انہوں نے کہا، ” ایک شخص کھڑا ہے اور ان فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف آواز اٹھارہا ہے جو ملک کو تقسیم کرنے ، سیکولر ازم کو تباہ کرنے اور جمہوری سیٹ اپ کو تباہ کرنے کی کو شش کر رہی ہیں”۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر سیکولر ازم اور جمہوریت پر مکمل یقین رکھتا ہے کیونکہ جب 1947 میں ہندوستان اور پاکستان میں ہندو اور مسلمان مارے جارہے تھے ، کشمیر ہی وہ واحد جگہ تھی جہاں پنڈتوں، سکھوں، ڈوگروں کو کشمیریوں نے تحفظ فراہم کیا تھا۔ محبوبہ نے کہا، "یہی وقت ہے جب (ایم کے ) گاندھی جی نے کہا تھا کہ وہ کشمیر سے امید کی کرن دیکھ سکتے ہیں۔ جب ملک میں سیکولرازم کو تباہ کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں تو جموں و کشمیر کے لوگوں کو اس کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہم نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا حالانکہ ہم واحد مسلم اکثریتی ریاست تھے، کیونکہ یہ ایک سیکولر اور جمہوری ملک تھا جس کے لیے گاندھی جی نے اپنی جان قربان کی تھی”۔ اس لیے ہمارا فرض ہے کہ اگر کوئی شخص ملک کی جمہور بیت اور سیکولرازم، اس کی گنگا جمنی تہذیب کو بچانے کے لیے نکلا ہے تو اس کے ساتھ کھڑا ہونا لازمی ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ ایک طرف تو ان کی پارٹی آرٹیکل 370 کی بحالی کا مطالبہ کر رہی تھی ، جسے مرکز نے 5 اگست 2019 کو منسوخ کر دیا تھا، لیکن دوسری طرف وہ کانگریس پارٹی کی اس یا ترا کی حمایت کر رہی ہیں جس نے حکومت کے اس اقدام کی حمایت کی تھی۔ محبوبہ نے کہا کہ دونوں مسائل الگ الگ ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ یاترا میں شامل ہو نا ملک میں جمہوریت اور سیکولر ازم کوبچانے کے لیے ہے۔ ہماری لڑائی الگ ہے اور ہم اسے لڑتے رہیں گے۔
پی ڈی پی سربراہ نے افغانستان میں طالبان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پرعائد پابندی کی بھی مذمت کی۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم حاصل کرنا ہمارے اسلام میں ہے اور اگر کوئی ہے جواسلام کا نام لے کر مذہب کے خلاف کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم اسکی مذمت کرتے ہیں۔جموں و کشمیر کے ایل جی منوج سنہا کے اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہوئےکہ وادی میں کشمیری پنڈتوں کے قتل کو فرقہ وارانہ نہیں بنایا جانا چاہئے ،
محبوبہ نے کہا کہ انہیں یہ سبق بی جے پی کو دینا چاہئے۔ یہ کبھی نہ ہونے سے بہتر ہے، کیونکہ یہ بی جے پی حکومت ہے جو کشمیری پنڈتوں کے قتل کو فرقہ وارانہ بناتی ہے۔ انہوں نے اس پر فلم (کشمیر فائلز)بنائی اور پھر اسے ہر جگہ دکھایا۔ پی ڈی پی سربراہ نے کہامہ ” وہ کشمیری مسلمانوں اور کشمیری پنڈت برادریوں کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اچھا ہے کہ انہوں نے (سنہا) یہ کہا، لیکن، میرے خیال میں، انہیں یہ سبق بی جے پی کودینا چاہئے ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جموں و کشمیر کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیاگیا ہے جہاں ”کسی کو کچھ کہنے یا اظہار کرنے کی اجازت نہیں ہے”۔ جیلیں جموں و کشمیر کے لوگوں سے بھری پڑی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو باہر کالجوں میں مارا پیٹا جاتا ہے۔ بی جے پی نے ملک کا ماحول خراب کر دیا ہے۔