آج جب پھر میں گھرسے دو تین کلومیٹر دور نکلا تو بچوں کی ٹولیاں سڑکوں پر گشت کررہی تھیں۔
ہمارا گاؤں دو ضلعوں کے تحت آتا ہے، بڈگام اور سرینگر۔ ہمیں دونوں ضلعوں کے شہری اور گاؤں کے علاقوں کو دیکھنے کا خوب موقع ملتا ہے۔ ’’ہوکرسر‘‘ بھی ہماری ہمسائیگی میں پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہاں لوگ آتے جاتے ہیں۔ کشمیر میں بڑے آرمی کیمپوں میں ایک بڑا آرمی کیمپ یہاں کے’’ شریف آباد‘‘ میں موجود ہے۔ معروف’’ ایچ ایم ٹی بھی ہمارے پڑوس میں ہے۔ یہاں بچوں سے لے کر ہر عمر کے لوگ فرصت کے لمحات اور چھٹیوں کے دن گھومنا پھرنا پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ رفتار زمانہ کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب و تمدن میں بھی تبدیلی آچکی ہے۔ پہلے ہمارے یہاں سادگی ہوا کرتی تھی لیکن اب ایک جنونی تہذیب نے قبضہ جما لیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں تو ہوتی رہتی ہیں جن میں کچھ مثبت ہوتی ہیں مگر زیادہ تر اپنے ساتھ منفیات کے عناصر لاتی ہیں۔ جب ہم بچے تھے، تو زندگی کا ایک طرز عمل تھا۔ اس وقت جو غلط ہوا کرتا تھا، وہ آج صحیح تصور کیا جاتا ہے۔ البتہ کچھ اصول ایسے ہیں جو جوں کے توں چلے تو آرہے ہیں مگر آج کل ان خرابیوں اور برائیوں کو نہ غلط سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی گناہ تصور کیا جاتا ہے۔
جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، لڑائی سے دور رہنا، چوری کرنا، الزام تراشی، وغیرہ تو ہمارے بچپن میں بھی غلط اور گناہ سمجھے جاتے تھے۔ مگر آج کل ان خرابیوں اور برائیوں کو غلط سمجھا جاتا ہے نہ ہی گناہ تصور کیا جاتا ہے! اب ہمارے کم سن ناتجرکار بچوں نے ان غلط کاریوں کی دلدل میں اترنا شروع کردیا ہے۔ بارہ سے پندرہ سال تک کے لڑکے اور لڑکیوں کو ان کاموں میں ملوث دیکھ کر انسان دھنگ رہ جاتا ہے۔
اب ذرا عیدالفطر کی بات کروں تو عید کے دن چھوٹے بچوں اور کم سن نسل کی حالت دیکھ کر حیران ہوگیا۔ بلا کسی خوف و ڈر کے سگریٹ نوشی ہر بچہ کھل کر کر رہا تھا اور اپنے طرز اطوار سے ہر کوئی اپنے اسلاف کے اقدار کی دھجیاں اڑارہا تھا۔ حیا و شرم نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی۔ شائد اسی لئے اب چاقووں اور نوکیلے ہتھیاروں سے ایک دوسرے پر حملے کرنے کا رجحان بھی آگے بڑھ رہا ہے۔میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ زمانہ بدلتا ہے، مختلف طرح کی تبدیلی رونما ہوتی ہیں۔ چلنے پھرنے کے ڈھنگ، ملبوسات، سوچ، طرز زندگی، وغیرہ ہر چیز میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ مگر غنڈہ گردی کے خوفناک کیوں کر اور کہاں سے در آئی ہے، سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان کمسن بچوں کی ذہنوں میں کونساشیطانی خیال ابھر آیا ہے کہ وہ چاقووں اور دیگر ہلاکت خیز چیزوں کے ساتھ ایک دوسرے پر حملے آور ہونے سے کوئی ہچکچاہٹ یا خوف محسوس نہیں کرتے ہیں۔ یہ نیا مسئلہ بڑا پیچیدہ دکھاتی دیتا ہے۔
اصل میں اس کمسن نسل کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کرنا، نادانی ہے۔ ہمارے یہاں تو بڑوں کا حال، بے حال ہے۔ دنیا اور دولت کی ہوس نے ہم سب کو انسان نما جانور بنا دیا ہے۔ دکھاوا، انا اور بغض و حسد نے ہمیں درندگی پر لا کھڑا کر دیا ہے۔ عزم و استقلال، محنت و مشقت اور رزق حلال سے ہی بہترین معاشرہ اور ترقی یافتہ قوم تیار ہوتی ہے اور وہی قومیں ہر لحاظ سے انسانیت کے درجے پر پوری اترتی ہیں۔ مگر دور حاضر میں اکثر لوگ زیادہ چھوٹے بڑے پیمانے پر حرام ذرائع کی کمائی مصروف ہیں !! رشوت، جعلسازی، دھوکہ دہی، ناجائز منافع خوری،چھل کپٹ، سینہ زوری، ٹھگی،وغیرہ غیر قانونی اور گھناؤنی کاموں میں ملوث ہیں، تو ان کی اولاد کا شریف ہونا، دیوانوں کے خواب میں مبتلا ہونے کے مترادف ہے۔ حرام کی دولت سے نیک کام نہیں ہوسکتے ہیں جس کے نتیجے سامنے آرہے ہیں۔ہماری کم نسل بھی اب ایک دوسرے کا گلا کانٹنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی ہے۔ ظاہر ہے جب ان کے بڑے بھی مختلف طریقوں سے دوسروں کے گلے کاٹتے رہتے ہیں، اس کا اثر تو بچوں پر پڑ ہی سکتا ہے۔ رشوت لینا جرم عظیم ہے مگر ہر کوئی لیتا ہے۔ اس کا سیدھا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ چنانچہ وہ اسی رزق پر پلتے، بڑھتے اور جوان ہوجاتے ہیں۔ ایک اور وجہ موبائل فون کا عام ہونا بھی ہے ۔ بلوغت سے پہلے بڑاہونا ،تباہی کے مترادف ہے۔ وہ مواد دیکھنا جس کے لئے ذہن مکمل طور پر تیار نہیں ہے، بچوں کو ذہنی انتشار کا شکار بنا دیتا ہے۔ لڑائی جھگڑوں اور فسادات میں ہلاکت خیز ہتھیاروں کی کھلے عام نمائش اور استعمال دیکھ کر بھی کمسن نسل کے ذہن ان خوفناک وادیوں کی جانب چلے جاتے ہیں، جہاں سے ان کی واپسی انتہائی مشکل بن جاتی ہے۔ دس سال کا بچہ موبائل فونز پر موجود مواد کی باریکیوں اور تباہیوں کو کیسے سمجھ پائے گا جو تیس سال کے نوجوان کے لئے بھی پر خطر ہوتا ہے۔ آن لائن گیمز بھی اس میں اپنا نمایاں رول ادا کرتے ہیں۔ قتل و غارت، مضروبیت اور مجروحین کو دیکھ دیکھ کر بچوں کے اذہان پر منفی نقوش کی چھاپ پڑجاتی ہے اور وہ اس کو عملی صورت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
اپنے یہاں قانون کی گرفت بھی بہت ڈھیلی ہے! رشوت کے عوض قاتل تک’’ چھوٹ‘‘ جاتے ہیں، جس کا سیدھا اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ وہ بھی موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور گناہوں کے شکار ہوجاتے ہیں۔ صحبت کا رول نمایاں رہتا ہے۔ گالی گلوچ اور لڑائی کے ماحول میں بچوں کا مستقبل اچھا نہیں بن سکتا۔ دراصل بچوں کے بگاڑ میں بڑوں کا ہاتھ رہتا ہے۔ ہمیں آج تک یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آئی کہ کیسے اولاد کی تعلیم و تربیت کی جائے۔ ہم ان کو محض لالچ کے لئے پالتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ بچہ پہلے انسان ہے، وہ سوچتا ہے ، اثرلیتا ہے، جذبات کا مجموعہ ہے اور پھر کچھ کرنا چاہتا ہے۔ ہم اس کے جذبات کی قدر نہیں کرتے ،بس مذہبی لبادے کی اوڑھ میں سمجھاتے اور دھمکاتے رہتے ہیں اور دنیا کی اصل حقیقتوں سے دور رکھتے ہیں۔ ہم ان بچوں کے ذریعے ہی اپنی خواہشات پورا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہشوں کا دم گھونٹتے رہتے ہیں ۔
موجودہ دور کے حالات میں انسانیت کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنا ،تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ اس لئے ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس غنڈہ گردی کا تدارک کرنا ہے۔ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھنی ہے۔بچوں کے دوستوں کے ماحول کو دیکھنا ہے۔ بچہ اپنے کمرے میں کیا کرتا رہتا ہے اور کس چال ڈھال میں رہتا ہے، موبائل کتنا استعمال کرتا ہے ، اس پر نظر رکھنی ہے ۔ ہاں! اپنے بچوں کو دوسروں کے بچوں کے ساتھ موازنہ کرنا بھی چھوڑ دینا ہے۔ اس کی جائز حاجتوں کو پورا کرنا ضروری ہے۔بچوں کو بچے کے ہی سطح پر سمجھانا وقت کی ضرورت ہے۔ اپنی کارکردگیاں بچوں کے سامنے جتاتے رہنے میں کوئی دانائی نہیں ہے۔ ہار اور جیت زندگی کا حصہ ہے، یہ بات ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔ ان کو مثبت لڑائی لڑنے کی کوشش کروانی ہے۔ تواریخ سے اسباق لینا ان کے لئے مفید ہوسکتے ہیں۔ سخت ڈانٹ ڈپٹ سے پرہیز کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنا ہوسکے ایک ماہر نفسیات کی طرح بچوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کرنی ہے اور کسی بھی طرح کے ذہنی دباؤ باہر لانے کی کوشش کرنی اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔ ہماری کم سن نسل ہمارا اصلی سرمایہ ہے۔