تعلیم ایک عمارت کی مانند ہے، جس کے لئے بہت ساری چیزیں درکار ہوتی ہیں؛ کوئی بھی عمارت کھڑا کرنے کے لئے جو چیز سب سے اہم ہے، وہ اس کی بنیاد پر منحصر ہوتی ہے ۔ اگر بنیاد کمزور ہو، تو باقی منزلوں کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ ہاں!کچھ وقت کے لئے دیکھنے والے اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوسکتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حقیقت آشکار ہو ہی ہوجائے گی۔ تب دیکھنے والوں کو اس کی کمزور بنیاد اور دوسری خامیوں کا پتہ چل جاتا ہے ‘کہ اس عمارت پر صَرف کیا ہوا قیمتی سرمایہ ضائع کیا گیا ہے۔ تعلیم کا حصول معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اگر اول جماعت سے طلباء کو بنیادی باتوں سے واقف نہ کیا جائے تو آگے چل کر یہ خامیاں طالب علم کے لئے تباہی کا باعث بن جاتی ہیں۔ مضبوط بنیاد پر کھڑی کی گئی عمارت کے کھنڈرات تک اس بات کے شاہد بن جاتے ہیں کہ وہ ایک شاندار عمارت تھی مگر کمزور بنیاد پر بذات خود اپنی شکست کی دلیل بن جاتی ہے۔
خیر! ایک عمارت کو پھر سے تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ خراب مال کی جگہ اصلی اور قیمتی اشیاء استعمال کر کے اس کو پھر سے قابل سکونت بنایا جاسکتا ہے مگر ان طلباء کا کیا ہوسکتا ہے جن کے بنیادی سال تباہی کے نظر ہوگئے ہوں۔ جن کو ابتداء میں ہی تعلیم کے حصول کی بنیادی باتوں سے دور رکھا گیا ہو۔ ظاہر ہے کہ بچپن کے دس بارہ سال کسی بھی انسان کے لئے پوری زندگی کا راستہ متعین کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ اگر یہی قیمتی سال کسی لاحاصل کام میں ضائع ہوجائیں، تو آنے والا کل یقیناً اس انتہائی نقصان دہ صورت حال کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
گوکہ ہم نے ہر بار اعلیٰ عمارات کو مزین کرنے میں اپنا وقت صرف کیا، نئی نئی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر خوب سے خوب تر حسین و جمیل محلات سے زمین کی آرائش کی۔ البتہ تعلیم کے میدان میں سستی ٹیکنالوجی اور غیر معیاری چیزوں کا استعمال کر کے تعلیم کی جڑوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ سماج میںتعصب اور جہالت سے بھرے ہوئے لوگوں کی بھرمار ہوگئی، جس میں پڑھے لکھے لوگوں کی حالات زار دیکھ کر ترس آجاتا ہے ، جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔
بغور جائزہ لیا جائے تو اس کے پیچھے بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہیں۔ پہلا ہے علم کی ناقدری۔ ہم نے عمل کی قدر کو جانا ہی نہیں ہے۔ دوسری چیزوں کو ہم سر پر رکھتے ہیں البتہ علم کی قدر سے ناواقف ہیں۔ہمارے لئے مخصوص ہنر کا حصول یارَٹ کر یاد کرنے کو علم کا نام دیا گیا ہے۔ اب جو جائز یا ناجائز طریقوں سے کچھ ہنر سیکھتا ہے اور نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اس کو’’ عالم‘‘ کہا جاتا ہے اور لوگ اس کی پیروی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اس قسم کی تعلیم میں کچھ بھی نہیں رکھا ہے۔ اس سے ایک اعلیٰ انسان پیدا ہوگا اور نہ ہی ایسی شخصیت جو جینے کا سلیقہ جانتی ہو ۔ دوسرا ہے دنیا کی ہوس۔ اس ہوس نے تعلیم کو صرف دولت کمانے تک محدود کیا ہے۔ لوگ اب اس سے صرف دولت کماتے ہیں۔ اس دوڈ میں بھلے اور بُرے کا فرق ہی ختم ہوچکا ہے۔ جب تعلیم کا محور صرف پیسوں کے اردگرد گھومتا ہو، تو یہ تعلیم، تعلیم نہیں رہتی ہے۔ تو ایسے میں یہ امید رکھنا کہ تعلیم کی بنیادیں ٹھوس ہوںگی، ناقابل قبول ہے ۔ تیسرا ہے فرسودہ تعلیمی نظام۔ اس نظام کے تحت ایسی تعلیم دی جاتی ہے جو کھولکاہٹ سے بھری ہے۔ ایسا علم جس میں طوطے کی طرح سنی سنائی باتوں کا ورد زیادہ البتہ دانائی و بنیادی تصور کا فقدا ن کم ہوتا ہے، تو علم کیسے اصل ترقی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ اس تعلیم سے معلومات کے انبار تو لگ جاتے ہیں مگر بنیادی مفاہیم کہی بھی نظر نہیں آتے ہیں۔ اس طرح سے جڑیں کھوکھلی اور ثمر کڑوا ہوتا ہے۔ چوتھا ہے دین سے دوری۔ اسلام علمِ حقیقی پر زور دیتا ہے۔ وہ علم جس سے دل کی آنکھیں کھل جائیں، وہ علم جو باہر دیکھنے کے بجائے اندر جھانکنے پر آمادہ کرئے،ایسا علم جو بلندیوں کو چھونے کی ترغیب دے۔ اس کے برعکس ہم دین کی تعلیمات سے بھی دور ہوگئے اور عمل کرنے کا سوال ہی تو نہیں ، ہم صرف باتوں کے جادوگر ہیں! عملی طور پر سیڑھی کے نچلے پیدان پر کھڑے ہیں ۔ اس کا اثر تعلیم کے نام پر گمراہی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے ہر سطح پر کام کرنا ضروری ہے۔ ملک کی پہلی ترجیح تعلیمی شعبے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ اسی شعبے سے دوسرے شعبوں کی زینت بڑھے گی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دوسرے شعبے اسی کہ مرہون منت ہیں ۔ تعلیمی اداروں کو موجودہ زمانے کے مطابق فعال بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ان اداروں میں ایسی تعلیم پر زور دینا ہے جو طلباء کو حقیقی زندگی کے لئے تیار کرے۔ ان کی حاجات کا بھرپور خیال رکھیں۔ ان کو اپنے آپ کو پہچاننے میں مدد کریں۔ ایسا ماحول قائم کیا جائے جہاں تعلیم کے ثمرات سماج کے ہر فرد تک پہنچ سکیں۔ سرکار کا رول اس میں سب سے زیادہ ہے۔ حکومت اگر چاہیے تو وہ سماج کے ذی شعور افراد کی مدد سے بہترین تعلیمی نظام ترتیب دے سکتی ہے،جس نظام کے تحت قابل طلباء کی تیاری ممکن ہو۔ امید کرتے ہیں کہ ایسا نظام جلد سے جلد ترتیب دیا جائے اور طلباء بنیادی باتوں سے واقف ہوجائیں۔