امت نیوز ڈیسک //
سرینگر (جموں و کشمیر): جموں و کشمیر کی گرمائی راجدھانی سرینگر کے چھتہ بل علاقہ میں واقع نذیر احمد میر کی رہائش گاہ میں اس وقت جشن کا ماحول ہے۔ دراصل نذیر احمد میر کے فرزند فیضان نذیر کا تقرر برطانیہ میں شاہی حکومت میں سرکاری ملازم کے طور پر ہوا ہے۔ اگرچہ وہ گزشتہ سال ملازمت کے لیے منتخب ہوئے تھے لیکن اس سال جنوری میں انہیں باضابطہ ایک عہدے پر کام کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ وہ برطانوی حکومت میں تعینات ہونے والے نوجوان کشمیری ہیں، جن کی پیدائش سرینگر (کشمیر) میں ہوئی ہے۔ جنوری میں اپنے عہدہے پر فائز ہونے کے بعد وہ پہلی بار عید الاضحیٰ کی چھٹیوں پر اپنے گھر آئے تھے۔
اپنی کارکردگی کے حوالے سے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "میں اس وقت لندن میں دی آفس آف گیس اینڈ الیکٹرسٹی مارکیٹس (او ایف جی ایم) میں قانونی مشیر کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ او ایف جی ایم برطانیہ کا ایک انڈیپنڈنٹ انرجی ریگولٹر ہے۔ اس وقت میرا عہدہ گریڈ 7 (جی7) ہے، جس کا مطلب ہے کہ میں اپنی ٹیم کے پالیسی کے شعبے میں نتائج کے لیے جوابدہ ہوں۔”اپنی سلیکشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "جس طرح بھارت میں یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) اور جموں و کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس (جے کے اے ایس) کے مسابقتی امتحانات ہوتے ہیں، برطانیہ میں بھی ایسے امتحانات الگ الگ زمروں میں ہوتے ہیں۔ وہ اسامیوں سے متعلق اشتہار جاری کرتے ہیں جس میں امیدوار اپنی درخواستیں جمع کرتے ہیں۔ چونکہ بھارت نیم وفاقی ملک ہے جبکہ برطانیہ کی حکومت کا نطام کلی طور وفاقی ہے، اس کی وجہ سے برطانیہ میں بیوروکریسی کی سطحیں مختلف ہیں۔ میں جی7 میں ہوں اور یہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروسز (آئی اے ایس) اور جموں و کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروسز (جے کے اے ایس) کے درمیان آتا ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ "بھارت میں بیوروکریٹس کو ان کے تجربے اور خدمات میں سنیارٹی کی بنیاد پر ترقی دی جاتی ہے۔ بھارت کے برعکس، برطانیہ اپنے سرکاری ملازمین کو ان کی قابلیت کی بنیاد پر ترقی دیتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر میں محنت کروں اور اپنی قابلیت کو ثابت کروں، تو میں برطانوی بیوروکریسی میں سب سے اوپری سطح تک بھی پہنچ سکتا ہوں۔”اپنی کامیابی کا سہرا اپنے والدین کے سر باندھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "سب سے پہلے خدا اور اس کے بعد میرے والدین اس کامیابی کیلئے ذمہ دار ہیں۔ کوئی بھی کچھ بھی حاصل کر سکتا ہے بس شرط یہ ہے کہ اچھا ماحول ملے۔ مجھے میرے والدین نے سب کچھ مہیا کرایا”۔ فیضان کے والد نذیر میر بھی فرزند کی کامیابی پر کافی خوش ہیں۔ وہ فیضان کی کامیابی اپنی مشکلات کا انعام مانتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ "میرے بیٹے کی تمام تعلیم دہلی میں ہی ہوئی۔ وہیں قانون کی تعلیم حاصل کی پھر وہاں کی عدالتوں میں کام بھی کیا۔ اس کے بعد برطانیہ کا امتحاں بھی پاس کیا اور گزشتہ برس وہاں کے سول سروسز امتحانات کے نتائج سامنے آئے لیکن پوسٹنگ امسال جنوری میں ملی۔ کافی وقت تک ہم نے یہ بات کسی کو نہیں بتائی لیکن آخر کار بات منظر عام پر آ گئی اور تب سے سب لوگ ہمیں مبارک باد دے رہے ہیں۔ میرے بیٹے نے علاقہ کا نام روشن کیا ہے۔”ان کا مزید کہنا تھا کہ "ہم غریب لوگ ہیں۔ ایسا بھی وقت تھا کہ ہمارے پاس اس کی اسکول فیس تک نہیں تھی۔ ہمیں کچھ سمجھ نہیں آتا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کچھ نہیں کرنا پڑا۔ وقت وقت پر لوگوں نے ساتھ دیا اور آج یہ خوشی نصیبی ہوئی۔ انہون نے کہا کہ تعلیم اور کیریر میں آگے بڑھنے کیلئے یہ لازمی ہے کہ آپ کا کردار بے داغ ہو، زندگی کے کسی بھی مرحلے پر آپکی شخصیت پر کسی نے انگلی نہ اٹھائی ہو۔ انہون نے کہا کہ برطانیہ میں تقرر کے بعد انکے فرزند کو اپنے مچالی کردار کے بارے میں سند پیش کرنی پڑی، اور وہ سند صرف اس صورت میں انہیں ملی جب انکا سارا تعلیمی کیریر بے داغ تھا، کہیں پر پولیس میں انکا نام منفی انداز مین درج نہیں تھا۔ انہون نے کہا کہ آج کل بچے اپنے والدین کی بات نہیں مانتے ہیں لیکن فیضان نے ہماری ساری بات مانی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انکی زندگی باوقار اور بامقسد بن گئی ہے۔”