انقلاب فرانس کے بانی روسو نے کہا تھا کہ قوی ترین شخص کبھی بھی طاقتور نہیں رہتا تاوقتیکہ قوت کو حق میں نہ بدل دے اور اطاعت کو فرض میں۔ ایسا کون سا ظلم تھا جو فرانس کے جاگیردارانہ سماج میں نہ تھا۔ ظلم اور جبر کی زنجیروں میں جکڑی انسانیت کو روسو نے آزاد تو نہ کیا البتہ راہ دکھا دی۔ پھر تاریخ گواہ ہے کہ انقلاب فرانس آج بھی دنیابھر کے انقلابیوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ پہلی دفعہ، مظلوم عوام جان گئی تھی کہ اگر عوام منظم جدوجہد کرے تو ظالموں سے آزادی حاصل کی جا سکتی ہے اور پھر اگلی صدی انقلابات کی صدی کہلائی۔
روسو کے قول کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آج ہماری ریاست میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ ریاست کی طاقت عوام ہوتی ہے مگر یہاں۔ ظالم اور مافیاز کی اجارہ داری عوام کو روند رہی ہے اور انصاف۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ انصاف حکمرانوں کی لونڈی ہے مگر آج؟ کارل مارکس کے مطابق معاشرے میں دو ہی طبقات ہوتے ہیں ایک ظالم اور دوسرا مظلوم۔ جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ سماج میں ریاست ظالم کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہے۔
1944، امریکہ میں ایک 14 سالہ سیاہ فام بچہ جارج سٹینی کو پھانسی دے دی گئی۔ امریکہ میں اس وقت ایسا ہی نظام رائج تھا جیسا کہ آج ہمارے ہاں۔ جیمز کرویو کی آڑ میں سفید فارموں کی اجارہ داری۔ مظلوم جارج کی قربانی رائیگاں نہیں گئی اور پھر اسی سر زمین پر مارٹر لوتھر کنگ اور میلکم مارشل پیدا ہوئے۔ انصاف کے لیے جنگ لڑی گئی۔ سیکڑوں سیاہ فام راہ اجل ہوئے۔ ساٹھ سال بعد ننھے جارج کو عدالت نے بے گناہ ثابت کر دیا۔ جج نے معافی مانگ کر کہا کہ ریاست کا قانون جارج کو انصاف دینے میں ناکام رہا۔ جو کہ ایک بہت بڑی نا انصافی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ امریکن سماج انصاف کے لیے مثالی ہے۔ وقت کے قاضی کی معافی ہو کہ امریکہ کے صدر کی۔ ازالہ تو ممکن نہیں مگر وہ ایک بات جانتے ہیں کہ ہمارا کل ہمارے آج سے جڑا ہے ہیں۔ وہ اپنی غلطیاں تسلیم کر رہے ہیں کہ ریاست نے انصاف دینے میں کوتاہی برتی اور ہمیں اپنی غلطیاں تسلیم کرنی چاہیے۔ آج غلطیاں تسلیم کریں گے تو کل سدھار آئے گا۔ اور ایک وقت آئے گا کہ مساوات کا بول بالا ہو گا۔
انسانیت نام ہی انصاف کا ہے۔ مارٹن لوتھر نے کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب ہمارے بچے، ہمارے پرانے آقاؤں کے بچوں کے ساتھ کھیلیں گے اور ہماری پہچان رنگ کے بجائے ہمارے کردار سے تعین کیا جائے گا۔ ریاست کا کام انصاف دینا ہے نہ کہ صبر کی تلقین کروانا۔ ایسی ریاست پر سوالات تو اٹھیں گے۔ وہاں انقلابی تو جنم لیں گے، جہاں بے دردی اور تشدد سے قتل کیے گئے بچے کی لاش کو ماں اپنی گود میں رکھ کر انصاف کی بھیک مانگے، اور قاضی وقت ہاتھ باندھ کر جھوٹی تسلی دے۔ حکمران صبر کا درس دیں۔ صبر تو وہاں ہوتا ہے جہاں انسان بے بس ہو مگر یہاں تاریخ بھری پڑی ہے ظالموں کے خلاف لڑنے والوں کی۔ ظالموں کے خلاف صبر نہیں ہوتا۔
کہتے ہیں کہ وقت ہر زخم بھر دیتا ہے۔ الفاظ گھڑ کہ خود کو مطمئن کرنا اپنے آپ پر ظلم کی ہی ایک شکل ہے۔ ظلم ہمیشہ ظلم ہی رہتا ہے۔ یہ جا کر اس ماں سے پوچھا جائے جس کی بچی انصاف ہی کے علمبردار کے ہاتھوں ظلم کی اگ میں جھلس گئی۔ جس انسان کے اندر انسانیت نہیں تو ایسے انسان کہنے کی ضرورت بھی نہیں وہ تو چار پائے سے بھی بدتر ہے۔ کیا قہر برپا تھا کہ سسکتی سانسیں اور تڑپتی روح اور ماں کا درد۔ کون ایسے اپنے لخت جگر کو ایسے جدا کرنا چاہتا ہے۔ انصاف کے لیے وہی لڑتا ہے جو انصاف کی قدر جانتا ہو۔ ایسے ہی واقعات انقلاب کو جنم دیتے ہیں۔ کیا کبھی ہم نے سوچا کہ انقلاب کیوں ہوتے ہیں؟
آزادی کا راستہ بڑا دشوار ہوتا ہے۔ یہ بات مارٹن لوتھر بھی جانتے تھے اور دنیا کے انقلابی بھی۔ کہ آزادی کے اس سفر میں موت بھی ان کی ہمسفر ہے۔ اپنی زندگی کس کو عزیز نہیں۔ مگر نوجوان جوانی میں ہی موت کو قبول کر لیتے ہیں۔ مائیں جانتی ہیں کہ بیٹے ظلم کے خلاف جنگ میں گھر واپس نہیں آئیں گے پھر بھی اپنے سینے سے لگا کر روانہ کرتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ظلم کے خلاف انصاف کے لیے وہی لڑتے ہیں جو انسانیت کا درد رکھتے ہیں۔
انقلابی لینن ہو کے ماؤ یا پھر چی گویرا ایک بات سمجھ گئے تھے کہ رونے دھونے کا فائدہ نہیں اور اس سے انصاف ملنا بھی نہیں۔ انصاف کی بھیک مانگی نہیں جاتی بلکہ حق لیا جاتا ہے اور انصاف کیا جاتا ہے۔ کھونے کو صرف ایک زندگی ہے اور پانے کو لاکھوں مظلوموں کی ازادیاں۔ ظلم کے خلاف ظالم سے جنگ میں ہار یا جیت نہیں ہوتی بلکہ مقابلہ ہوتا ہے۔ اور انہوں نے مقابلے کی ٹھان لی تھی۔ مظلوم اتنا بھی مظلوم نہیں ہوتا جتنا کہ بنا دیا گیا ہے، کیونکہ جس دن مظلوم کے درد اس کی طاقت بن گئے۔ انصاف کی بھیک مانگنے کے بجائے مقابلہ سیکھا گیا۔ تو مظلوموں کے آنسوؤں کی لڑیاں ہی ظالموں کی گردنوں کا پھندا ثابت ہوئیں۔
چی گویرا نے کہا تھا کہ اس سے بہتر ہے کہ تم مر ہی جاؤ جو زندگی تم گھٹنوں کے بل جھک کر جی رہے ہو۔