حالیہ دنوں میں، حکومت ہند نے دیہی نوجوانوں کو درپیش تعلیمی تفاوت کو دور کرنے کی فوری ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔ وزارت تعلیم کے ایک بیان میں فرق کو پر کرنے اور تمام طلباء کے جغرافیائی محل وقوع سے قطع نظر، یکساں مواقع کو یقینی بنانے کے عزم پر زور دیا گیا ہے۔ مزید برآں، حکومت نےرورل ایجوکیشن ڈیولپمنٹ پروگرام متعارف کرایا ہے جس کا مقصد بنیادی تعلیمی ڈھانچے کو بہتر بنانا، معیاری وسائل فراہم کرنا اور دیہی اسکولوں میں اساتذہ کی تربیت کو یقینی بنانا ہے۔ اس پالیسی اقدام کا مقصد سیکھنے کے لیے زیادہ سازگار ماحول پیدا کرنا ہے، جس سے دیہی نوجوانوں کو ایک اچھی تعلیم تک رسائی حاصل کرنے کے قابل بنایا جائے جو انہیں مستقبل کی کامیابی کے لیے تیار کرے۔ یہ یقینا ایک خوش آئند قدم ہے ،اس طرح کے اقدامات کو لاگو کرکے اور جامع تعلیمی پالیسیوں کو فعال طور پر فروغ دے کر، حکومت دیہی نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور تعلیم میں عدم مساوات کے چکر کو توڑنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ یہ حالیہ پیش رفت اس اہم کردار کی بڑھتی ہوئی پہچان کی عکاسی کرتی ہے جو تعلیم دیہی نوجوانوں کی زندگیوں کو بدلنے اور سب کے لیے ایک زیادہ مساوی اور خوشحال معاشرے کو فروغ دینے میں ادا کرتی ہے۔
آج ہمارا تعلیمی نظام صاف طور پر دو حصوں میں منقسم نظر آتا ہے، ایک جدید تعلیم کا نظام ہے جس کے تحت روزگارپر مشتمل نصاب ہے اور دوسری طرف روایتی تعلیمی نظام ہے جس کے ساتھ روزگار کے مواقع کم ہیں۔ روزگار کے مواقع حاصل کرانے والی تعلیم کے لیے اقتصادی طور پر خوش حال طبقے میں دل چسپی دکھائی دیتی ہے، کیوں کہ وہ جانتے ہیں ان کے بچے اس تعلیم کو حاصل کر کے روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ دیہی نوجوانوں کے ماں باپ اتنے خوش حال نہیں ہوتے کہ وہ بچوں کو مہنگی تعلیم فراہم کر سکیں۔ ہندوستان میں تعلیم کے لیے ایسا ماحول تیار ہوتا جا رہا ہے، جس میں سب کو سب کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ ایسے ماحول کے لیے ہماری سرکاری پالیسی ہی ذمہ دار ہے۔
ملک کی آزادی کے وقت لارڈ میکالے کے دیے گئے تعلیمی نظام ہی کو حرف آخر سمجھا گیا، جس سے آج تک ملک کا نقصان ہورہا ہے۔ آج بھی ہم تعلیم کے لیے دیہی سطح پر بنیادی ڈھانچا تیار نہیں کر سکے۔ اکثر گاؤں میں آج بھی بنیادی درس گاہوں کی کمی ہے۔ طالب علم کئی کئی کلومیٹر پیدل چل کر اسکول جانے پر مجبور ہیں۔ ایسے ماحول میں کم زور اقتصادی حالت والے خاندان اپنے بچوں کواعلی تعلیم کے لیے شہر بھیجنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ آج بھی تقریباً ساٹھ فی صد بچے پرائمری اسکول سے آگے تعلیم جاری رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ چالیس فی صد بچے ثانوی درجے کی تعلیم کے بعد اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ جب کہ بیس سے پچیس فی صد بچے ہائی اسکول تک کی تعلیم ہی حاصل کر پاتے ہیں، کہ اقتصادی اور معاشرتی مسائل انھیں آ گھیرتے ہیں۔ ایسے حالات میں اعلی تعلیم کے میدان میں دیہی نوجوانوں کی کس قدر نمایندگی ہوگی؟
روایتی تعلیم کے میدان میں دیہی نوجوان گریجویشن تک کی تعلیم حاصل کرلینے کے باوجود، روزگار کے بازار میں اپنے آپ کو کسی مقام پر نہیں پاتا۔ سرکاری اداروں میں روزگار کی صورت حال بہت ہی خستہ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں کے تجزیوں کے مطابق روزگار کے مواقع اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔جس ملک میں نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد ہو وہاں کے لیے یہ بہت بڑا المیہ ہوسکتا ہے ۔
ہمارے دیہی سماج کے صرف 12 فی صد نوجوان مینجمنٹ یا پروفیشنل کورس کرنے میں کام یاب ہو پاتے ہیں۔ ان میں سے صرف دو فی صد، کوئی بڑا روزگار حاصل کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ حکومت نے جس تیزی سے روزگار سے وابستہ تعلیم کو نج کاری کی طرف لے جارہی ہے، اس سے مفلس اور عام طبقے کو تعلیم سے محرومی ہی نصیب ہوئی ہے۔
اس نج کاری نے انجیئنرنگ، طب، مینجمنٹ، کمپیوٹر اور مختلف روزگار فراہم کرنے والے ڈپلوما اور سرٹیفکٹ کورسوں کے ذریعے، ایک طرح سے تعلیمی نظام پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے۔ من مانے طریقے سے داخلہ جاتی عمل اور فیس کا ڈھانچا کھڑا کر لیا گیا ہے، جس کے ذریعے تعلیمی ادارے پیسا کمانے کے مراکزمیں تبدیل ہو کر رہ گئے ہیں۔ جہاں متمول والدین کے بچوں کو داخلہ دے کر بھاری فیس وصول کی جاتی ہے، تا کہ ان کی اور ان کے ادارے کی صحت بنی رہے۔ تعلیم کے اصل مقصد سے منحرف یہ ادارے سرکاری ہدایات و احکامات پر کبھی عمل نہیں کرتے۔ انھوں نے اپنے اصول، اپنے قانون اپنی سہولت کے مطابق گڑھ لیے ہیں۔
اس نج کاری کے ذریعے، غریب اور دیہی نوجوانوں کو اعلی تعلیم ہی سے محروم رکھنے کا ناٹک نہیں چل رہا، بلکہ انھیں اسکول کی تعلیم سے بھی محروم رکھنے کی سازش ہو رہی ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بڑے پبلک اسکولوں کے پاس بھی ان غریب کے بچوں کو مفت اور اچھی تعلیم دینے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ وہ ملکی مفاد میں سوچنے کے لیے مجبور نہیں۔ وہ صرف انھیں کو اپنے اسکولوں میں داخل کرتے ہیں، جو ان کے مقرر کردہ فیس کے ہدف کو بے تامل پوراکر سکیں۔ اس ناروا تقسیم کے نتیجے میں ابتدائی دور ہی سے معیار زندگی پستی کی راہ پرچل نکلتا ہے۔ بالآخر امیر، غریب دو متوازی سماج تشکیل پاتے ہیں۔ ان میں سے ہر دو کے درمیان اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر دوری پیدا ہوتی چلی جاتی ہے، ایک طبقہ احساس کم تری میں مبتلا ہو کر حسد کاشکار ہو جاتا ہے، تو دوسرا افراط زر اور وسائل کی فراوانی میں کوتاہ بیں اور غفلت شعار بن جاتا ہے۔
تعلیم کے عدم مساوات سے دیہی نوجوان تیزی سے بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی بے روزگاری ملک کو خطرناک مستقبل کی طرف لیے جارہی ہے۔ دیہی نوجوان چھوٹے موٹے کاموں کے لیے شہر کا رخ کر رہے ہیں، جس سے ملک کے بنیادی ذریعہ آمدنی زراعت کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔ شہروں میں معیار زندگی میں بھاری فرق کو دیکھتے ہوئے کچھ نوجوان جلد امیر بننے کے چکر میں جرائم کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ گاوں میں رہ کر بھی وہ کھیتی میں کام یاب نہیں ہوتے، کیوں کہ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ آج کل کھیتی باڑی گھاٹے کا سودا بنتی جا رہی ہے۔ اس میں لگائے گئے سرمایے کی قیمت نکالنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔
ایسے حالات میں تمام راستوں کو بند دیکھ کر دیہی نوجوان کشمکش کا شکار ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو سمجھے اور دیہی نوجوانوں کے لیے ایسا لائحہ عمل مرتب کرے، کہ وہ اپنی زندگی کو سماج کے مرکزی نکتے سے منسلک کرنے میں کام یاب ہو سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ دیہی نوجوانوں کو ایسے مواقع فراہم کرے، کہ وہ ناچار محض نہ بن کے رہ جائیں، بلکہ ”تعلیم سب کے لیے”، ”اسکول جائیں ہم” اور ”مڈ ڈے میل” جیسی سرکاری کوششوں کو حقیقت کا روپ دیا جائے، تا کہ اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو سکیں۔
ہندوستان میں دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان موجودہ تعلیمی تفاوت فوری توجہ اور کارروائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگرچہ محدود انفراسٹرکچر، معاشی مجبوریوں اور نجکاری جیسے چیلنجز دیہی نوجوانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، حالیہ حکومتی پالیسیوں اور اقدامات نے امید کی کرن دکھائی ہے۔ تاہم ان مسائل کو جامع طریقے سے حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ دیہی تعلیم کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرکے، مالی مدد فراہم کرکے، جامع طرز عمل کو فروغ دے کر، اور مقامی ضروریات کے مطابق پیشہ ورانہ تربیت کی پیشکش کرکے، ہم دیہی نوجوانوں کو بااختیار بنا کر اور تعلیمی تقسیم کو ختم کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، حکومت، کمیونٹیز، اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کی مشترکہ کوششیں ایک معاون ماحول پیدا کرنے کے لیے بہت اہم ہیں جو دیہی نوجوانوں کی صلاحیتوں اور امنگوں کو پروان چڑھاتا ہے۔ صرف سب کے لیے یکساں تعلیمی مواقع کو یقینی بنا کر ہی ہم دیہی نوجوانوں کی بے پناہ صلاحیتوں کو فروغ دے سکتے ہیں اور ہندوستان کے لیے ایک روشن اور زیادہ مساوی مستقبل کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔
(لکھاری کا تعلق رانچی جھارکھنڈ سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔)