اسلام ایک ایسا خوبصورت مذہب ہے، جو اپنے ماننے والوں کوزندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ جن میں عبادات کے ساتھ ساتھ زندگی کے تمام امور و معاملات شامل ہیں۔
دین اسلام کی ہمہ گیری کا تقاضا یہی ہے کہ اُمت مسلمہ ایک وحدت کی حیثیت سے آپس میں مل کر اتفاق و اتحاد سے رہے۔ اس ضمن میں تمام اہل اسلام کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ نیکیوں کی تلقین کریں، برائیوں سے بچیں اور ایک دوسرے کو برائی سے روکیں۔یہ سب کچھ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک خدا، ایک رسولﷺ اور ایک کتاب حق کے ماننے والے آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہیں۔
مسلمانوں کو اللہ نے بہترین اُمت بنایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ آپس میں نیکی اور تقویٰ کا درس دیتے اور برائیوں سے ایک دوسرے کو روکنے والے ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا یہ اہم فریضہ اس وقت سرانجام ہو سکتا ہے جب ہم آپس میں پیار و اتفاق سے رہیں گے۔ شاید اسی لئے فتح و نصرت کو اللہ نے اجتماعی ایمان سے مشروط فرما دیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ ’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم سچے ہو‘‘ (سورہ آل عمران:139)۔گویا جب پوری اُمت مسلمہ میں اتفاق و اتحاد کی فضاء قائم ہو جائے گی تو وہ سب ایک دوسرے کے ہمدرد،غم خوار اور جانثار بن جائیں گے اور ان کی صفوں میں ایسی شیرازہ بندی قائم ہو جائے گی کہ کوئی بڑی سے بڑی عالمی قوت بھی ان کی راہ میں رکاؤٹ نہ بن پائے گی۔ ہمیں تو اللہ خود اپنی مقدس کتاب ہدایت میں یہ حکم دے رہا ہے! ’’تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘ (آل عمران: 103۔
اسلام ایسا دین نہیں جسے زبردستی لوگوں پر مسلط کیا جائے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلام نے زور زبردستی کرنے سے منع فرمایا ہے اور اللہ نے اسلام کو زور زبردستی پھیلانے سے منع فرمایا ہے۔ یہ تو امن اور سلامتی کا پیارا مذہب ہے اسلام کی مرضی اور منشاء تو یہ ہے کہ مسلمان آپس میں اس پیار و محبت کے ساتھ اتفاق واتحاد کے ساتھ رہیں کے غیر مذہب بھی ان کے اخلاق کو دیکھ کر اسلام کی دولت سے سرفراز ہو جائیں۔
اتحادِ اُمت پر زور دیتے ہوئے خود اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’بلاشبہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘ (سورۃ الحجرات)۔ جب تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں تو ان کا نفع بھی ایک ہے اور نقصان بھی ایک ہے۔ ان کی طاقت ان کا اتحاد ہے، انھیں دنیا کی دوسری قوموں پر اس لئے بھی برتری حاصل ہو گی کہ مسلمان اتحاد واتفاق کی اس فضاء کو قائم رکھتا ہے اور اس کی قائم رکھنے کیلئے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ یہ اتحاد امت ہی کا اثر تھا کہ کسی زمانے میں مسلمان دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور کامیاب قوم تھے۔ ان کی حیثیت ایک مضبوط اور مستحکم دیوار کی سی تھی مگر بد نصیبی سے جیسے جیسے لوگ اس مستحکم دیوار سے اینٹیں نکالتے گئے اور اپنے مفادات کے قلعے تعمیر کرتے گئے، ویسے ہی ان کی عزت و وقار کی یہ دیوار کمزور ہو کر ٹوٹنے اور بکھرنے لگی اور گرتی چلی گئی۔
ہم نے قرآن اور صاحب قرآن کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے، اس لئے آج ہم مفلوک الحال اورپریشان ہیں۔ موجودہ حالات پکار پکار کر کہہ رہے ہیں،وقت کا اہم تقاضہ ہے کہ ہم مسلمان اتحاد واتفاق کی فضاء قائم کریں۔ فرقہ واریت کا زہر جو ہماری نئی نسل میں ڈالا گیا ہے اس کو پیار بڑھا کر ختم کریں۔
ملت کی شیرازہ بندی کی آج بہت ہی ضرورت ہے جبکہ مسلمان مسلمان ہی کو مسلک عقیدے کے نام پر کافر کہہ رہا ہے۔۔۔۔ہر طرف افراتفر ی ہے جبکہ ہمارا مذہب تو ہمیں پیار محبت کا درس دے رہا ہے۔ ہمیں اتفاق واتحاد سے رہنے کا بتا رہا ہے۔ اسلام تو دوسروں کے ساتھ ایثار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اسلام نے تو ہمدردی کا سبق سکھایا ہے۔ اسلام تو اپنے ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات پر قربان ہونے کا درس دیتا ہے۔ اُمت کے افراد نے خودغرضی پر کمر کس لی ہے اور اپنے اپنے ذاتی مفادات کو آگے رکھ لیا ہے اور اس طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔
موجودہ دور میں اتحاد وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ قرآن مقدس اور سنت رسول اللہ ﷺ نے جا بجا اس کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔ آج پوری دنیا میںاختلاف وانتشار کی وجہ سے جو حالات پیش آرہے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ہمارے آپسی عدم اتفاق کی وجہ سے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان تو ضرور ہیں لیکن عمل سے ہماری زندگی خالی ہے اورہم تعلیم قرآن و سنت نبوی ﷺ سے ہم بہت دور ہیں۔ ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق باقی نہیں رہا ، ہم مسلکی و جزوی اختلافات میں منقسم ہوگئے۔ آج ہم سیاسی و مذہبی انتشار و خلفشار کی وجہ سے دلوں میں نفرت رکھتے ہیں اور یہ نفرت کم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ سیاسی انتہا پسندی و فرقہ واریت نے ہمیں اندر سے کھوکھلا اور کمزور بنا دیا ہے جس کی وجہ سے ہماری دنیا میں آج عزت نہیں رہی۔ پہلی وجہ یہ کہ ہم نے اتحاد و اتفاق کا دامن چھوڑا، پھر ہم ادب و احترام کا رشتہ ہی بھول گئے، جس کی وجہ سے تنزلی ہمارا مقدر ٹھہری جبکہ مذہب اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ اتحاد و اتفاق کا درس دیا ہے۔ دین اسلام میں اختلاف رائے جہاں ممدوح ہے، وہیں لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر اختلاف کو ناپسند کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف مت کرو کہ تم کمزور ہو جاؤ، ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘ (سورۃ الانفال:46)۔ اس آیت سے ہمیں یہ صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں کس اختلاف اور تفرقہ بازی سے روکا ہے، نیز یہ بھی بتلادیا کہ اگر تم نے آپس میں اختلاف کیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ اور وہ نتیجہ مسلمانوں کا کمزور ہو جانا اور ان کی اس طاقت کا جو اتحاد امت کی وجہ سے تھی ختم ہوجانا ہے۔
تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ قوموں کا عروج و زوال، اقبال مندی و سربلندی، ترقی، تنزلی اور خوشحالی میں اتفاق واتحاد، باہمی اخوت و ہمدردی اور آپسی اختلافات و انتشار اور تفرقہ بازی، اور باہمی نفرت و عداوت بہت اہم رول ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن و سنت اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ جب تک مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد قائم رہا اس وقت تک وہ فتح و نصرت اور کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوتے رہے اور جیسے ہی مسلمانوں نے اتفاق و اتحاد کے دامن کو چھوڑ کر اختلاف و انتشار میں لگے تب سے ہی شکست اور ناکامی اور طرح طرح کے مسائل ان کا مقدر بن گئی۔
اُمت مسلمہ کے درمیان اتفاق و اتحاد کی دو مضبوط بنیادیں موجود ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حجتہ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا ’’میں اپنے بعد تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جن کو مضبوطی سے پکڑ لو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری سنت‘‘۔ بیشک اتحاد و اتفاق کسی بھی قوم کی ترقی و اعلیٰ اہداف کے حاصل کرنے اور سربلندی و سرخروی کیلئے بہت اہم اور ضروری ہے۔
یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ اجتماعیت اسلام کی روح ہے، اتحاد اور آپسی محبت کے بغیر مسلمان اسی طرح ہے جیسا کہ بغیر روح کے انسان کا جسم۔ رسول اکرمﷺ کو اتحاد امت کا ہمیشہ بیحد احساس رہتا تھا۔ اتحاد کیلئے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے۔ علاقہ، نسل، رنگ، ملک، قوم، وطن، زبان، خاندان،حسب و نسب وغیرہ کی بنیاد پر گروہ بندی ہی عصبیت ہے۔ ا گر کسی فرد یا گروہ کی کسی تقریر، تحریریا عمل سے عصبیت کی بو آئے تو اسے فوری طور پر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے کہ ایک آدمی کی شورش بھی بڑی چیز ہے۔دیا سلائی کی ایک سلائی پوری دنیا کو جلا سکتی ہے، ٹھیک اسی طرح ایک انسان بھی پوری دنیا میں فتنہ برپا کر سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ عصبیت سے پوری طرح بچا جائے نیز ہر حال میں اتحاد کو قائم و دائم رکھا جائے کیونکہ یہ ایسی اجتماعی ضرورت ہے، جس کے بغیر کسی بھی خاندان و قوم کی بقا و ترقی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔
اتحاد کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ عصبیت ہے، یہ جذبات کو منفی سمت میں پروان چڑھاتی ہے۔ یہ اندھی ہوتی ہے، یہ عقل کو ماؤف اور مفلوج کرتی ہے، یہ تفریق اور بھید بھاؤ پیدا کرتی ہے۔اس کی پکار جاہلیت کی پکار ہے،عصبیت اتحاد کی ضد ہے، جہاں عصبیت ہوگی، وہاں اتحاد قائم نہیں رہ سکتا، جہاں اتحاد ہوگا، وہاں عصبیت کا گزر نہیں ہو سکتا۔نبی کریم ﷺ نے سخت ا لفاظ میں اس سے بچنے کی تاکید فرمائی ہے،چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہواہے کہ ’’جو عصبیت پر مرا وہ جہالت پر مرا،۱ور جو عصبیت کا علمبردار ہو وہ ہم میں سے نہیں،اور جو عصبیت پر جنگ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور جس کی موت عصبیت پر ہو وہ بھی ہم میں سے نہیں‘‘(سنن ابن ماجہ:3948)۔
رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’ آپ مومنوں کو آپس میں رحم کرنے، محبت رکھنے اور مہربانی کرنے میں ایسا پائیں گے جیسا کہ ایک بدن ہو، جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورے جسم کے سارے اعضاء بے خوابی، بے تابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘‘(صحیح بخاری، صحیح مسلم)۔
اُمت مسلمہ کے اسی اتحاد و اتفاق کو حضورﷺ نے ایک عمدہ انداز میں یوں بیان فرمایا ’’یعنی ایک مسلمان کا تعلق دوسرے مسلمان کے ساتھ ایک مضبوط عمارت جیسا ہے، اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے پھر آپﷺ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں پیوست کر کے دکھایا‘‘ ۔ معلوم ہوا کہ جس طرح ایک ایک اینٹ جوڑ کر عمارت بنائی جاتی ہے اسی طرح ایک ایک فرد مل کر معاشرہ بنتا ہے اور جس طرح ہر اینٹ دوسری اینٹ کو سہارا دیتی ہے اور عمارت بلند اور مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے ۔ اسی طرح پورے اسلامی معاشرے میں ہر فرد کو وہی کردارادا کرنا چاہیے جو ایک مضبوط عمارت کی ہر اینٹ اس عمارت کے استحکام اور اس کی بقاء کیلئے اپنا فرض ادا کرتی ہے۔مسلمان ایک دوسرے کا اگر سہارا بن کر رہیں گے تو ایک ناقابل تسخیر اُمت کی حیثیت سے اس دنیا میں عزت اور حرمت کے ساتھ اپنا وجود برقرار رکھ سکیں گے۔
ہم اپنی جس بدحالی پر آج سب پریشان ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہم نے ملت کے جسم کو اپنی خود غرضیوں اور ذاتی مفادات سے زخمی کر دیا ہے۔ ہم مسلمانوں کا ذاتی وجود دراصل ہمارے ملی وجود کا پرتو اور سایہ ہے۔ جب ہمارے برے اعمال سے ہمارے سروں پر سایہ کرنے والا یہ وجود کمزور ہو گا تو ہم کیسے خوشحال ہو سکتے ہیں۔ اگر ہمیں فرقہ واریت کے زہر اور اغیار کی ان سازشوں سے بچنا ہے تو ہمیں اتفاق واتحاد کا مظاہرہ عملی طور پر کرنا ہو گا۔
اسلام کا پیغام حق ہے کہ سب کلمہ گو، سب اہل ایمان آپس میں پیار ومحبت اتفاق واتحاد سے رہیں۔ رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس ہمارے لئے بہترین نمونہ اسوہ کامل ہے۔ یوں تو حضور پاک ﷺ کی مبارک زندگی کا ہر ہر پہلو پیارا ہے مگر حلم ،برداشت، عفوو درگزر، بھائی چارہ ایسے اوصاف حمیدہ ہیں جن کی نظیر نہیں ملتی۔ آپﷺ نے ان لوگوں کو بھی جنھوں نے تیرہ برس آپﷺ پر ظلم کئے فتح مکہ کے موقع پربیک جنبش لب یوں معاف فرما دیا جیسے انہوںنے کبھی کچھ کیا ہی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو آپس میں اخوت و محبت و ہمدردی اور ملکی وملی اور سماجی و سیاسی اور مسلکی و فروعی اختلافات سے بچائے اور امت واحدہ بن کر رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ خدا کرے کہ ہمارا کھویا ہوا شاندار ماضی ہمیں دوبارہ مل جائے اور ہم پھر سے ایک بار سر بلندی و سرخروی سے اس دنیا میں جیئیں اور جب اس دنیا سے جائیں تو اخروی کامیابی بھی ملے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اتحاد و اتفاق سے رہنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین