18 جولائی 2020ءکو جنوبی ضلع شوپیاں کے امشی پورہ میں تین نامعلوم عسکریت پسندوں کے مارے جانے کی خبر سامنے آئی۔تاہم بعد میں یہ جھڑپ فرضی قرار دی گئی اور فوج نے کورٹ آف انکوائری میں فوجی کپٹین کو تین نوجوانوں کی ہلاکت میں قصواروار ٹھہرایا اور کپٹین کو عمر قید کی سزا سنائی دی۔تاہم 9 نومبر2023کو آرمڈ فورسز ٹربیونل نے فوجی کیپٹن بھوپیندر سنگھ کی عمر قید کی سزا کو معطل کر دیا اور فوجی ٹربینول نے کیپٹن بھوپیندر سنگھ کی مشروط ضمانت بھی منظور کر لی۔ اس کے علاوہ فوجی کپٹین کو اگلے سال جنوری سے ہر پیر کے روز باقاعدہ وقفوں پر اپنے پرنسپل رجسٹرار کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت دی گئی۔جب اس بارے میں فوجی کپٹن کے وکیل میجر (ریٹائرڈ) سدھانشو ایس پانڈے سے تفصیلات جانے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کچھ بھی بتانے سے انکار کیا۔انہوں نے کہا کہ کیس ابھی زیر سماعت ہےتاہم انہوں نے ضمانت کی منظوری کی تصدیق کی ہے اور کہا کہ دفاع کا موقف جس کی سمری جنرل کورٹ مارشل نے مکمل طور پر نظر انداز کر دی تھی، درست ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ’’نوجوان افسر کو اس طرح سے سزا دینے سے دوسرے افسران پر بہت مایوس کن اثر پڑے گا جو قوم کے دفاع کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔میں قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لیے مسلح افواج کے ٹریبونل کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق بھوپیندرسنگھ کو جموں کی سول جیل لایا گیا اور بعد میں 11 نومبر کو ہی ٹریبونل کی ہدایت کے مطابق ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ٹریبونل نے کہا کہ کیپٹن کی صرف عمر قید پر روک لگائی گئی ہے جبکہ باقی دیگر سزائیں برقرار ہیں۔آرمی افسر کو پہلے ہی نوکری سے برطرف کر دیا گیا ہے اور انہیں پینشن اور دیگر مراعات سے محروم کر دیا گیا تھا۔
کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے: متاثرین
ادھر متاثرین نے اس فیصلے سے مایوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ناانصافی قرار دے کر کہا کہ وہ اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گے۔مارے گئے نوجوان ابرار احمد کے والد صابر حسین نے نیوز ایجنسی پی ٹی آئی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ” ہم غریب لوگ ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں انصاف نہیں دیا گیا۔ ہم کیپٹن کو تین بے گناہوں کاقتل کرنے پر سزائے موت کی توقع کر رہے تھے۔ ہم خاموش نہیں رہیں گے اور ٹربیونل کے حکم کو چیلنج کریں گے“۔محمدابرار کے والد بگا خان نے کہا کہ ’’ہم اعلیٰ عدالت میں جائیں گےاور ٹربیونل کے حکم کے خلاف اپیل کریں ۔یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ پانچ لاکھ روپے کا معاوضہ اور 14000 روپے کی تنخواہ والی نوکری ہمارے بچوں کی جان کی قیمت نہیں ہے۔“اسی طرح امتیاز احمد کے والد محمد یوسف نے کہا،’’یہ چیلنجوں اور رکاوٹوں سے بھرا ایک مشکل راستہ ہے، لیکن میرا ایمان غیر متزلزل ہے، میرے بیٹے کی یادوں اور اس یقین سے کہ سچ کی فتح ہوگی۔‘‘
سیاسی جماعتوں نے کئے سوالات کھڑے
ادھر سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی آرمی کیپٹن کی عمر قید کی سزا معطل کرنے پر سوالات کھڑے کیے گئے ہیں۔عمر عبداللہ نے کہا کہ’’مرکز بار بار یاد دلاتی ہے کہ ہمارے خون کی کوئی قدر نہیں، کشمیری نوجوان جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور اب تین بے گناہوں کو قتل کرنے والا کھلے عام گھومے گا“۔پی ڈی پی صدر محبوب مفتی نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ” ابھی ابھی امشی پورہ فرضی جھڑپ میں ہلاک شہری کے والد سے بات ہوئی۔ وہ آرمی ٹریبیونل کی طرف سے فوجی کیپٹن کو جس نے خود جرم کا اعتراف کیا تھا، دی گئی عمر قید کی سزا کو معطل کرنے کے فیصلے پر انتہائی مایوس ہیں۔“ الطاف بخاری نے کہا ”ہمیں ہندوستانی جوڈیشری پر یقین رکھنا چاہیےجو خون ناحق بہایا گیا اس سے انصاف ضرور ہوگا۔“
تین بے گناہ نوجوانوں کو قتل کیسے کیا گیا؟
سرحدی ضلع راجوری کے یہ تین نوجوان 25سالہ محمد ابرار، 20 سالہ محمد امتیاز اور 16سالہ ابرار احمد خان 17 جولائی 2020 کو مزدوری کی غرض سے شوپیان پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایک کمرہ کرائے پر لیا تھا۔شوپیاں پہنچتے ہی اس شام کو انہوں نے اپنے گھر والوں کو فون پر مطلع کیا تھا کہ انہیں ایک مقامی باغ میں کام مل گیا ہے جسے وہ اگلے روز شروع کر رہے ہیں اور اسکے بعد انکا گھر والوں سے کوئی رابطہ نہ ہوسکا۔جس کے بعد گھر والوں نے مقامی پولیس تھانے میں ان نوجوانوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی۔ ان ہلاکتوں پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا گیا جس کے بعد فوج نے فوری طور پر کورٹ آف انکوائری کے احکامات جاری کئے۔ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے تینوں نوجوانوں کی شناخت کے بعد اکتوبر 2020میں مہلوکین کی قبر کشائی کے بعد لاشیں وارثین کے حوالے کی گئیں۔کورٹ آف انکوائری کے بعد فوجی عدالت نے امسال مارچ میں سنگھ کو قتل سمیت چھ الزامات میں قصوروار پایا اور انہیں عمر قید کی سفارش کی۔اس فیصلے کے خلاف کپٹین نے فوجی ٹریبونل میں اپیل کی تھی اور کہا کہ وہ صرف اپنے کمانڈنگ آفیسر کے احکامات کی تعمیل کر رہے ہیں، جو اس آپریشن کا حصہ تھے۔جہاں سے اب انکی عمر قید کی سزا معطل کی گئی۔