جموںو کشمیر کے ڈوڈہ ضلع میں15 نومبر2023ء کی صبح کو پیش آنے والے سڑک حادثے جس میں آخری اطلاعات ملنے تک 40 کے قریب معصوم انسان اپنی جان کی بازیاں ہار چکے ہیں ۔ اس علاقے میں سڑک حادثے کوئی نئی بات نہیں ہیں اور عوام الناس کی مانیں تو ہر بار کی طرح اس المناک حادثے کو بھی حکام جلد ہی بھول بھال جائیں گے اور اس اہم ترین پہاڑی ضلع کی جانب آنے جانے والی سڑکوں کی ناگفتہ بہہ حالت کو بہتر بناکر ان حادثوں کو روکنے کی کوئی معقول اور مسلسل کوشش مفقود ہی رہے گی۔
اطلاعات کے مطابق بدھ کے روز ہونے والے حالیہ سڑک حادثے میں مسافروں سے کھچا کھچ بھری بس میں بٹوت کشتواڑ قومی شاہراہ پر تر نکل۔عسر کے قریب سڑک سے پھل کر 300فٹ گہری کھائی میں گری، جس سے کم از کم38افراد لقمہ اجل اور 18دیگر زخمی ہوئے۔ پولیس حکام کے مطابق گاڑی زیر رجسٹریشنJK02CN6555میں مبینہ طور پر56مسافر سوار تھے۔ ہلاک شدگان میں سے 8افراد غیر مقامی ہیں۔ حادثے میں مرنے والوں میں سے 9خواتین بھی شامل ہیں۔المناک حادثے میں مرنے والوں میں سے 3افرادبہار سے، 2اتر پردیش اور 3چھتیس گڑھ کے رہنے والےہیں۔ حکام کے مطابق حادثے کی اطلاع ملنے کےمعاً بعد ، سیکورٹی فورسز، پولیس اور مقامی رضاکاروں کی مدد سے بچائو آپریشن لانچ کیا گیا اور لاشیںنیززخمیوں کو کھائی سے اُوپر لانے کی کارروائی کی گئی۔ پولیس حکام کے مطابق یہ حادثہ صبح تقریباً یا11 بجکر 50منٹ پرپیش آیا۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ بد قسمت گاڑی کشتواڑ سے براستہ ڈوڈہ جموں جارہی تھی کہ عسر نامی جگہ کے قریب ڈرائیور کے قابو سے باہر ہو کر کھائی میں گری جس کے نتیجے میں موقع پرہی 30 کے قریب افراد جاں بحق اورا ڑھائی درجن دیگر زخمی ہوئے۔ چار کو شدید زخمی حالت میں بذریعہ ائر ایمبولینس گورنمنٹ میڈیکل کالج جموں منتقل کیا گیا جہاں پر 2کی موت ہوئی ۔جیسا کہ پہلے ہی بتایا گیا ہے کہ حادثے کے فوراً بعدمقامی لوگوں ، رضا کار تنظیموں، پولیس، سیکورٹی فورسز و سیول انتظامیہ نے وسیع پیمانے پر امدادی کارروائی شروع کیں اور لاشوں وزخمیوں کو گورنمنٹ میڈیکل کالج ڈوڈہ اورپی ایچ کی عمر منتقل کیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر ڈوڈہ اورایس ایس پی ڈوڈہ سمیت سیول، پولیس و سیکورٹی فورسز کے دیگر اعلی افسران بھی جائے وقوعہ پر پہنچ کر امدادی کارروائیوں میں جٹ گئے۔ اس دوران عسرپرائمری ہیلتھ سینٹر میں 8افراد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے جبکہ جی ایم سی ڈوڈہ میں ایک اور شخص زندگی کی بازی ہار گیا۔ رات دیر گئے تک بتایا گیا کہ اس المناک حادثہ میں 39افراد جاں بحق و17دیگرزخمی ہوئے تھے جبکہ کچھ دیگر اطلاعات کے مطابق مہلوکین اور زخمیوں کی تعداد میں اضافے کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ واضح رہے کہ اسی مقام پر ایک سال قبل المناک حادثہ میں محکمہ تعمیرات عامہ کا سپر نٹنڈنٹ انجینئر ایک اور ایگزیکٹو انجینئر سمیت 4افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
ڈوڈہ کے ڈپٹی کمشنر ہر ویندر سنگھ کے مطابق ”یہ ایک افسوسناک واقعہ ہےجس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ بس دائیں طرف نہیں چلائی جارہی تھی، جس کے نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیا ۔ان کا مذید کہنا تھا کہ ’’ہم نے گاڑی کی تمام تفصیلات چیک کیں، شاید اسے صحیح طریقے سے نہیں چلا یا جار ہا تھا ۔گاڑی شاہراہ کی دیوار سے ٹکرا کر نیچے گر گئی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ واقعہ کی انکوائری کی جائے گی۔ انکا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں کے علاوہ پولیس اور ریاستی ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (ایس ڈی آر ایف) کے اہلکار ریسکیو آپریشن میں شامل رہے۔ حکام کے مطابق بس میں اضافی مسافر سوار تھےجس کے نتیجے میں یہ یو ٹرن پر الٹ گئی اور کھائی میں جاگری۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ لاشوں کو بس کے کچھ حصوں کو کاٹنے کے بعدنکالا گیاجبکہ کچھ لاشیں بری طرح مسخ شدہ تھیں۔اس موقع پرموجود مقامی لوگوںنےاس اہم شاہراہ کی عرصہ دراز سےخستہ حالی پر تشویش کا اظہار کیا جس کی وجہ سے نہ صرف مذکورہ حادثہ پیش آیا بلکہ ماضی میں بھی ایسے کئی حادثات پیش آئے ہیں اور کئی قیمتی جانیں جاچکی ہیں۔ ان سطور کے رقم کئے جانے تک اس حادثے میں کل38 افراد کے جان بحق ہونے کی تصدیق کی گئی تھی جن میں سے36 کی شناخت کودی گئی تھی جبکہ دو مذید مہلوکین کی شناخت ہونا باقی تھا۔ حادثے میں جان کی بازی ہار جانے والوں میںسر اوتی دیوی دختر را جیش کمارساکنہ عسر، ویشو ٹھا کر ولد راجیش کمار، عسر، چونی لال ولد بیلی رام ساکن ٹھنڈا پانی، دیوندر سنگھ ولد فیروز سنگھ ساکن پریم نگر ، آشو پر یہار ساکن کشتواڑ ، رینو کا پر یہار ساکن کشتواڑ ، راگھو ناتھ ساکن در ابشالہ ، ساکشم پر یہار ساکن کشتوار، شکیل احمد (ڈرائیو) ساکن ڈوڈہ، ہمانشورینا ساکن بھدر رواہ،ریتاد یوی ساکن کشتوار، سبھاش چندر کشتوار، جاوید احمد ساکن ادھم پور ، راجیش کمار ساکن چھاتر و، نظام الدین ساکن بہار، سور نہ دیوی ساکن ڈوڈہ، بھگوان سنگھ ساکن ملہوتہ ، رتنا دیوی سروڑ کشتوار، آزاد حسین ساکن بہار، محمد یوسف ولد احد ساکن دھار بلا ور کٹھوعہ ، دھر مندر سنگال ولد گوکل چند ساکن دہر مومڈ بٹوت، انور دھا زوجہ و یشو موہن ساکن گوہا مرمت جسویر ولد رمیش کمار ساکن چانٹی بھلیسہ ، سیمرن دیوی زوجہ راکیش کمار ساکن نا گسنی کشتواڑ، سریش کمار کرش ولد او چیت رام ساکن چھتیس گڑھ،ندیم ولد محمد یا مین ساکن میرٹھ یوپی ، دلشاد ولد نور دین ساکن بد ھانا مظفر نگر یوپی، محمد ولد ر مجانی میاں ساکن ضلع سپول بہار، روشن لال ولد دینا ساکن ٹھنڈا پانی عسر، منیش کمار ولد بے رام ساکن درابشالہ ، ارون کمار ولد راجیش کمار ساکن ٹٹانی سروڑ، ایتواری دیوی زوجہ سریش کمار ساکن چھتیس گڑھ، اجہیہ بائی زوجہ دھانی رام ساکن چھتیس گڑھ ،رنگیل سنگھ ولد پورن لال ساکن پاڈر کشتوار، سنیل منہاس ولدہنس راج ساکن ٹھاٹھری ،بشن لال ولد منگل سنگھ ساکن پاڈر کشتواڑ شامل ہیں۔ جیسے کہ پہلے ہی بتایا جاچکا ہے کہ مرنے والوں میں سے دو کی شناخت نہیں ہو سکی تھی۔حادثے کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں میں روشنی دیوی زوجہ موہن لال ساکن کشتو ار، چندر کمار ولد سائیں داس سر تھل، ششی کمار ولد چمبیل سنگھ چرالہ ولد دیوی راج تالاب تلو جموں، اروشی ولد وش مومن اود ھمپور، کیان شان ولد سشیل شان سر وڑ، سور بھ کمار بستی کشتوار ، رکشم ولد اجے سنگھ کشتوار ، راکیش کمار اود ھمپور،ر نجیت کمار یوپی، سوجل کمار عسر ،مر چندر کمار چھتیس گڑھ و دلیپ مہتو بہار، اس کے علاوہ 2کمسن بچوں سمیت 4افراد کی شناخت نہیں ہو پائی ہے۔
یہ بات پہلے ہی لکھی جاچکی ہے کہ جموں خطہ کے پیر پنجال رینج اور چناب وادی میں مہلک حادثات میں اضافے کی اہم وجوہات پہاڑی علاقے، تیز رفتار ڈرائیونگ، مسافروں کی اوور لوڈنگ اور سڑکوں کی خستہ حالی کو بتایا جاتا ہے۔یہ سڑک حادثات خاندانوں کو بکھیرتے رہتے ہیں اور یہ اندوہناک سلسلہ گویا نہ تھمنے کانام لے رہا ہے۔اگرچہ ہر دور میں حکمران اور انتظامیہ ان حادثات کے لئے کبھی بری اور جلد باز ڈرائیونگ، کبھی اوور لوڈنگ اور کبھی دوسرے عوامل کو ہی ٹھہراتی آرہی ہے لیکن آج کے اورماضی میں رونما ہونے والے حادثات کی ایک ٹائم لائن ڈوڈہ اور کشتواڑ کے جڑواں اضلاع میں قاتل سڑکوں کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں اور زخمیوں کی چونکا دینے والی تفصیلات ظاہر کرتی ہے۔اس ضمن میں ایک اخباری رپورٹ میں مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق،2020ءسے 2023ءتک ڈوڈہ اور کشتواڑ اضلاع میں کل881سڑک حادثات ہوئے۔ کشتواڑ میں تقریباً 90حادثات ہوئے جن میں 88جانیں گئیں اور 235افراد زخمی ہوئے۔ ڈوڈہ میں 791حادثات ہوئے جن کے نتیجے میں 170افراد ہلاک اور1026زخمی ہوئے جس کے نتیجے میں چناب خطہ کے ان جڑواں اضلاع میں کل 285اموات ہوئیں۔اعداد و شمار سے مزید پتہ چلتا ہے کہ 2016میں ڈوڈہ میں34افراد ہلاک اور 347زخمی ہوئے اور کشتواڑ میں 21افراد ہلاک اور85زخمی ہوئے۔ 2017میں ڈوڈہ میں49افراد ہلاک اور274زخمی ہوئے، جب کہ کشتواڑ میں 15افراد ہلاک اور 97زخمی ہوئے۔ 2018میں ڈوڈہ میں28افراد ہلاک اور330زخمی ہوئے جب کہ کشتواڑ میں 39افراد ہلاک اور130زخمی ہوئے ۔ 2019ءمیں کشتواڑ میں تقریباً 56افراد ہلاک اور ڈوڈہ میں46افراد ہلاک اور300سے زائد زخمی ہوئے۔اسطرح ان دونوں اضلاع میں2016 سے لیکر 2019 تک سڑک حادثات میں کل 283افراد ہلاک ہوئے۔ان حادثات کے بارے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ قومی شاہراہ244کے بٹوت۔ڈوڈہ۔کشتواڑ حصے کی خستہ حالی اور اندرونی سڑکوں کی ابتر حالت کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوںکو بھاری نقصان ہو رہا ہے اوریہی ان حادثات کی بنیادی وجہ اورزمینی حقیقت ہے۔ ڈوڈہ کے لوگ حادثات کے لیے خراب سڑکوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور اس ضمن میں غیر جانب دار تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ڈوڈہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ حادثات کی متعدد وجوہات ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ جڑواں اضلاع میں سڑکیں آمدورفت کا ذریعہ نہیں بلکہ موت کے جال ہیں۔بٹوت۔ڈوڈہ۔کشتواڑ شاہراہ کی حالت کسی بھی سفر کے لیے خطرناک ہے۔اگرچہ شاہراہوں کی صورت حال نوے کی دہائی سے بدل گئی ہے لیکن یہ اب بھی خطرناک ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف حادثات کے بڑھتے ہوئے خطرے ہیں اور دوسری جانب گاڑیوں کو اوور لوڈ کرنے کی بلا امتیاز اجازت ۔ ایسے میں لوگوں کی زندگیاں ہیں جو دائو پر لگی ہوئی ہیں اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہورہا۔ اطلاعات کے مطابق اس راستے پر کریش بیریئرز (حفاظتی رکاوٹیں)کی عدم موجودگی بھی گاڑیوں کے گھاٹیوں میں گرنے کی ایک اہم وجہ ہے۔ اس وجہ سے گاڑیاں موڑ کرتے وقت گھاٹیوں میں گرتی ہیں اور ایسے وقت بھی آتے ہیں جب لاشوں کو تلاش کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ساتھ ہی مقامی لوگ اس حادثے کےلئے سڑک کی غیر متوازی قطار بندی کو مانتے ہیں ۔علاقہ مکینوں کا مطالبہ ہے کہ کرونگل سے عسر کے درمیان 200میٹر کا راستہ جلد از جلد ٹھیک کیا جائے۔ ان کا خیال ہے کہ ’’خراب سیدھ ‘‘ یا غیر متوازی قطار بندی کی وجہ سےسڑک کایہ حصہ خاص طور پر سنگین طور پر حادثے کا شکار ہے۔حادثے کے ایک چشم دید گواہ کا کہنا تھا کہ’’ یہ خوفناک تھا‘‘۔ حادثے کی جگہ سے بمشکل 100میٹر دور ایک جگہ سے اپنا کاروبار چلانے والے اس شخص کا کہنا تھا کہ ’’ڈرائیور ایک موڑ پر بس کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا اور وہ نیچے جا کر پرانی شاہراہ پر رک گئی جو استعمال میں نہیں ہے۔‘‘ بس نے مختلف موڑ لیے اور دریائے چناب سے کچھ میٹر دور پرانی شاہراہ پر رک گئی۔ واضح رہے کہ جب2009ءمیں کشتواڑ۔بٹوت سڑک کو دوبارہ بنایا گیا تو عسر اور ترنگل کے درمیان کے حصے کو ڈھلوانوں پر سے لے لیا گیا اور پرانی شاہراہ کا حصہ استعمال میں نہیں رہا۔سڑک کے اس نئے حصہ کے کھلنے کے چند ہی دنوں کے اندر، ایک المناک حادثہ25مسافروں کی موت کا باعث بنا جب ایک بس تقریباً اسی راستے سے نیچے گر گئی۔اس کے بعد سے، اس سڑک پر کئی سڑک حادثات ہو چکے ہیں۔ گزشتہ سال اسی سڑک کی خرابی کی وجہ سے ایگزیکٹیو انجینئر سمیت کئی لوگوں کی جانیں گئیں۔ایک مقامی نیوز ایجنسی کے مطابق ان سڑک حادثوں کی وجہ سے عوام الناس کے اندر تشویش بڑھ رہی ہے۔نیوز ایجنسی کے مطابق بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان سڑکوں کی خطرناک حالت کو دور کرنے کے لیے حکومت کی فوری توجہ ضروری ہے، جو کہ ہلاکتوں کا ایک بڑا سبب بنی ہے۔ کشتواڑ کے رہنے والےایک آدمی نے سڑکوں کی بہتری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، ’’ہر موسم سرما میں پونچھ، راجوری، ادھم پور، کشتواڑ، رام بن اور ڈوڈہ میں سڑک حادثات کی وجہ سے سینکڑوں لوگ مر جاتے ہیں۔ بہت سے مقامات پر سڑکیں تنگ ہیں اور انہیں چوڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح، اونچی جگہوں پر حفاظتی باڑ لگانے اور میکاڈمائزیشن کی بھی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے واقعات کو روکا جا سکے۔‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سال20فروری کو جموں و کشمیر حکومت نے بٹوت ۔ڈوڈہ ۔کشتواڑ سڑک کو حادثات سے پاک بنانے کے لیے اقدامات تجویز کرنے کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔اس کے علاوہ، جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے حکومت کو یہ بھی حکم دیا تھا کہ وہ خمیدہ سڑکوں پر رولنگ بیریئرز/اسٹیل کے ستون نصب کرے اور جہاں کہیں بھی سڑک پر پلٹیاں(Culvert)پائے جاتے ہیں، اور اگلی مقررہ سماعت کی تاریخ تک کام ہوگیا ہے کی رپورٹ داخل کرے۔تاہم، علاقے میں سڑک حادثات کے نہ رکنے والے سلسلے کے بعد، مقامی لوگوں کا الزام ہے کہ حکام علاقے میں سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے کے لیے زیادہ کام نہیں کر رہے ہیں۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ پچھلے پانچ برسوں میں ہر سال اوسطاً 900سے زیادہ اموات کے ساتھ فی10 ہزارگاڑیوں کے سڑک حادثات کی تعداد میں جموں و کشمیر پورے ہندوستان میں دوسرے نمبر پر ہے۔2013ءمیں کیے گئے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے سروے میں جموں و کشمیر’’ زیادہ حادثاتی موت کے شکار علاقوں‘‘ کی فہرست میں سرفہرست بتایا گیا ہے، ریاست میں کسی حادثے میں موت کا64فیصد امکان ہوتا ہے، جب کہ بھارت بھر میں یہ شرح36 اعشاریہ 4فیصد تھی۔ محکمہ ٹریفک کے اعداد و شمار بھی حادثات میں اضافے کے رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں، پچھلے 12سالوں میں ہر سال اوسطاً 12 ہزارسے زیادہ اموات اور ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے ہیں۔
اس المناک حادثے کے بعدہر طرف سے سیاست دانوں اور جماعتوں کی اس پر تعزیت کے بیان آرہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی سے لیکر مقامی قائدین اور سیاسی جماعتوں نے اس دلدوز حادثے پر رنج و غم کا اظہار کیا ۔وزارت داخلہ کی جانب سے مہلوکین کےلئے ایکس گریشیا کا بھی اعلان ہوگیا ہے ۔یہ سبھی باتیں اچھی اور خیر کن ہیں لیکن اصل ضرورت ان حادثات کو روکنے کی کوشش کرنا ہے کیونکہ رنج و غم اور تعزیتی بیانات یا پھر ایکس گریشیا کی صورت میں امداد دینے سے بکھرنے والے خاندانوں کو سمیٹنا اور ان کے بچھڑے ہوئے پیاروں کو لوٹانا ممکن نہیں ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ حکام ان حادثات کو محض ڈرایئوروں کی لاپرواہی ،اوور لوڈنگ یا دوسرے ایسے ہی معاملات کا نتیجہ قرار دے کر پہلو تہی کرنے کا رویہ ترک کرکے ان حادثات کو کم سے کم کرکے انسانی جانوں کے اتلاف کو روکنے کی کوششیں کریں گے۔