امت نیوز ڈیسک //
نئی دہلی: سپریم کورٹ کی سات ججوں کی بنچ نے پیر کو کہا کہ کوئی رکن پارلیمنٹ یا ممبر اسمبلی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلی میں ووٹ یا تقریر کے سلسلے میں رشوت کے الزام میں قانونی چھوٹ کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ دراصل سپریم کورٹ نے نرسمہا راؤ کے 1998 کے فیصلے کو پلٹ دیا ہے۔ 1998 میں پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے 3:2 کی اکثریت سے فیصلہ دیا تھا کہ رشوت خوری کے معاملے پر عوامی نمائندوں کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ اب سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو پلٹنے کی وجہ سے ایم پی یا ایم ایل ایز ایوان میں ووٹنگ کے لیے رشوت لے کر کارروائی سے نہیں بچ سکتے۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں سات ججوں کی بنچ نے سابقہ فیصلے کے دوران نرسمہا راؤ کے فیصلے کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا "ہم اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں اور اس کو مسترد کرتے ہیں کہ رکن پارلیمنٹ کو پارلیمانی استحقاق کے تحت قانونی استثنیٰ کا دعویٰ کر سکتا ہے۔”
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ نرسمہا راؤ کی اکثریت کا فیصلہ جو قانون سازوں کو استثنیٰ دیتا ہے ایک سنگین خطرہ ہے۔ عدالت اسے مسترد کر تی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مزید کہا کہ مقننہ کے رکن کی بدعنوانی یا رشوت عوامی زندگی میں قابلیت کو ختم کرتی ہے۔ 5 اکتوبر کو چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت میں سات ججوں جسٹس اے ایس بوپنا، ایم ایم سندریش، پی ایس نرسمہا، جے بی پاردی والا، سنجے کمار اور منوج مشرا شامل تھے، نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
2019 میں اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں ایک بنچ، جس نے سیتا سورین، جاما سے جے ایم ایم ایم ایل اے اور پارٹی سربراہ شیبو سورین کی بہو، جو جے ایم ایم رشوت ستانی کے اسکینڈل میں ایک ملزم تھی، کی طرف سے دائر اپیل کی سماعت کی تھی۔ اہم سوال کا حوالہ پانچ ججوں کی بنچ کو دیا، یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ اس کا وسیع اثر ہے اور کافی عوامی اہمیت کا حامل بھی ہے۔