امت نیوز ڈیسک //
حیدرآباد: مدراس ہائی کورٹ نے حال ہی میں اپنے ایک فیصلے میں مسلم پولیس اہلکار کے پیغمبر محمد کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے داڑھی رکھنے کے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔
مدراس ہائی کورٹ کی جسٹس ایل وکٹوریہ گووری کی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بھارت متنوع مذاہب اور رسم و رواج کا ملک ہے۔ اگرچہ محکمہ پولیس نے سخت نظم و ضبط برقرار رکھنے کی ضمانت دی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں بالخصوص مسلم ملازمین کو داڑھی رکھنے پر سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ مدراس پولیس گزٹ کے مطابق افسران کو داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، لیکن مسلم پولیس افسران زندگی بھر داڑھی رکھنے کے حقدار ہیں۔
تامل ناڈو حکومت کے محکمہ پولیس کی جانب سے سخت نظم و ضبط کے مطابق افسران کو داڑھی رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، لیکن مسلم پولیس افسران زندگی بھر داڑھی رکھنے کے حقدار ہیں۔ لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق نے کہا کہ تامل ناڈو حکومت کے محکمہ پولیس میں سخت نظم و ضبط کی ضرورت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے اہلکار کو داڑھی رکھنے پر سزا دی جائے۔
کیا ہے پورا معاملہ؟
دراصل عدالت عبدالقادر ابراہیم کی درخواست پر سماعت کر رہی تھی۔ جن کو 2019 میں گریڈ 1 کے پولیس کانسٹیبل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔ ابراہیم کے خلاف 31 دن کی چھٹی مکمل ہونے کے بعد ڈیوٹی پر رپورٹ نہ کرنے اور مدراس پولیس گزٹ کے حکم کے خلاف داڑھی رکھنے پر انکوائری شروع کی گئی تھی۔
جس کے بعد تفتیشی افسر نے الزامات کو درست پایا اور پھر ڈپٹی کمشنر آف پولیس (آرمڈ ریزرو) نے 3 سال تک ان کا انکریمنٹ روکنے کی سزا کا حکم دے دیا۔ لیکن ابراہیم کی اپیل کے بعد پولیس کمشنر نے حکم نامے میں ترمیم کرتے ہوئے انکریمنٹ میں اضافہ روکنے کا وقت 3 سال سے کم کر کے دو سال کر دیا۔
اس کے بعد ابراہیم نے اس حکم کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جہاں ابراہیم نے کہا کہ حکام کو اس بات پر غور کرنا چاہیے تھا کہ ان کا تعلق مسلم کمیونٹی سے ہے جو زندگی بھر داڑھی رکھنے کا مذہبی عقیدہ رکھتے ہیں۔
تاہم حکام نے ابراہیم کو ایک عادی شرپسند قرار دیا اور کہا کہ اسے ماضی میں بھی تادیبی کارروائیوں کے تحت سزا دی جا چکی ہے۔ دیگر الزامات کے بارے میں عدالت نے کہا کہ حکام کو کمائی ہوئی چھٹی سے واپس آنے کے بعد ابراہیم کے انفیکشن کے پیش نظر انہیں طبی چھٹی کی اجازت دینی چاہیے تھی۔
اس طرح عدالت نے محکمہ پولیس کے حکم نامہ کو منسوخ کر دیا اور معاملے کو دوبارہ غور کے لیے کمشنر کے پاس بھیج دیا۔