امت نیوز ڈیسک //
سرینگر : بنگلہ دیش میں جاری پرتشدد مظاہروں نے کشمیر کے والدین کو پریشانیوں میں مبتلا کر دیا ہے۔ جبکہ سابق وزرائے اعلیٰ – عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی – اور طلبہ تنظیموں نے حکومت ہند سے کشمیری طلبہ کی سلامتی کے لئے مدد کی اپیل کی ہے۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں جاری پر تشدد مظاہروں میں اب تک 39 مظاہرین کی ہلاکت ہوئی ہے جبکہ بیسیوں افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
ہر سال سینکڑوں کشمیری طلبہ بنگلہ دیش میں میڈیکل سمیت دیگر پروفیشنل کورسز، خصوصاً ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ یہ طلبہ لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں کیونکہ بنگلہ دیش میں میڈیکل ڈگریاں بھارت اور دیگر ممالک کے مقابلے میں نسبتاً سستی ہیں۔
جموں کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) صدر محبوبہ مفتی نے کہا کہ بنگلہ دیش میں جاری تشدد نے والدین کو پریشان کر دیا ہے جن کے بچے وہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ محبوبہ مفتی نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر لکھا: ’’جیسا کہ بنگلہ دیش میں احتجاج اور انتشار جاری ہے، میں ڈاکٹر ایس جے شنکر سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ (اس معاملے میں) فوری مداخلت کرے اور بنگلہ دیش میں ہزاروں کشمیری طلبہ کی سلامتی کو یقینی بنائیں۔ انٹرنیٹ سروسز معطل ہونے سے والدین کی پریشانی میں اضافہ ہوا ہے۔ فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ انہیں واپس گھر لایا جا سکے۔‘‘
جموں کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے وزارت خارجہ سے کشمیری طلبہ کی حفاظت اور انہیں محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لئے مدد کی اپیل کی ہے۔ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے کہا: ’’سینکڑوں کشمیری طلبہ نے ہم سے رابطہ کیا ہے اور اپنی ذاتی سلامتی کے حوالے سے شدید اضطراب کا اظہار کیا ہے اور اپنے ہاسٹلز سے محفوظ مقام پر فوری منتقلی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔‘‘ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا مزید کہنا ہے کہ ’’بڑھتا ہوا تشدد ان کی زندگیوں اور تعلیمی مستقبل کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ ہمیں مختلف یونیورسٹیز اور کالجز میں پھنسے ہوئے کشمیری طلبہ کی جانب سے پریشان کن فون موصول ہوئی ہیں۔ بہت سے والدین نے بھی ہمیں مطلع کیا ہے کہ ان کے بچے جاری تشدد اور انتشار کی وجہ سے خوفزدہ اور پریشان ہیں۔ کشمیر میں موجود والدین / سرپرست اپنی اولاد اور اعزہ و اقارب کی سلامتی کے لئے شدید فکر مند ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں مظاہرے اس وقت پھوٹ پڑے جب بنگلہ دیش ہائی کورٹ نے حکومت کی 30 فیصد نوکریوں کے لئے ان افراد کے لئے کوٹہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے 1971 کی پاکستان کے خلاف جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، ملک میں جاری تشدد میں اب تک 39 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔