ہمارا معاشرہ ہر دو اطراف سے انتہاپسندی اور بنیاد پرستی کا ایسا بدترین شکار ہوا کہ اعتدال، توازن، برداشت مکمل طور پر ختم ہو چکا۔
ایک جانب معاشرے کی ایک اکائی مذہبی طبقہ انتہاپسندی کا شکار ہے کہ اس طبقہ نے اپنے نظریات کی ترویج کیلئے گفتگو، مکالمہ، نشت و برخواست کو نظرانداز کر کے اپنے نظریات مسلط کرنے کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔
دوسری جانب مذہب اور مذہبی افکار سے بیزار طبقہ ہے جسے لبرل کہا جا رہا ہے، وہ طبقہ بھی اپنے افکار کی ترویج میں ویسے ہی بے باک ہے جیسے مذہبی انتہاء پسند طبقہ۔
دونوں طبقات نے ایک دوسرے کو پڑھنا، سننا، ایک دوسرے کے پاس بیٹھنا اور ایک دوسرے کے نظریات کو پرکھنا شجرِ ممنوع سمجھ لیا۔ جس کی وجہ سے دونوں طبقات اپنی اپنی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ اور معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔
اس بدترین صورتحال کے ذمہ دار بھی صاحبان مسند و منبر دونوں ہیں۔ ہم نے معاشرے کو دو چہرے فراہم کیے جن میں سے ہر چہرہ دوسرے کیلئے باعثِ نفرت کے طور پر پیش کیا گیا۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے تحقیق کے عمل کو چھوڑ دیا۔ ایسا ہرگز نہیں کہ مسائل کا حل مذہب کے پاس نہیں اور اس بات کا انکار بھی ممکن نہیں کہ مسائل کا حل اہلِ فلسفہ یا لبرل طبقہ کے پاس نہیں۔ مسئلہ یہ ہے دونوں افکار کا تقابلی جائزہ اور مطالعہ نہیں ہو رہا۔
آئیے ہم مذہبی بیزاری کو ترک کر کے مذہب اور دین کے احکامات کی روح سمجھیں، اس کے مثبت اور قابلِ نفاذ پہلوجات کو پرکھیں اور ناقابلِ عمل یا ناقابلِ نفاذ امور کے متبادل مفروضہ پیش کریں۔ اگر مفروضہ پر تجربہ ممکن ہو تو اسے معاشرے کی بہتری کیلئے استعمال کیا جائے۔
لبرل افکار کے حامل افراد کے ساتھ نشت کی جائے، ان کے مسائل کو سنا اور پرکھا جائے، مثبت پہلؤوں کو بروئے کار لایا جائے اور منفی اور قابلِ تردید امور کے متبادل کوئی ٹھوس پالیسی وضع کی جائے۔
چہروں سے نفرت ختم کیجیے، لباس کو دیکھ کر لہجے مت بدلیے، بلکہ مثبت بحث، مکالمہ اور مناقشہ کے ذریعہ اس انتہاپسندی کا خاتمہ کیجیے۔
ورنہ ہر دو جانب سی انتہاپسندی اس معاشرے کو کھا جائے گی۔