آج مجھے ایک واقعہ یاد آرہا ہے, جو مولانا وحید الدین خان (مرحوم) کی کتاب "راز حیات” میں پڑھا تھا۔ جس میں انھوں نے جرمنی میں ایک ورکر سے ڈیوٹی کے موقع پر کچھ بات کرنا چاہی تو اس ورکر نے انھیں جواب نہیں دیا۔ بعد میں وہ شخص کھانے کے وقفے میں مولانا وحید کے پاس آیا اور اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ کیا آپ کے ملک میں لوگ ڈیوٹی کے وقت میں اپنی ذمہ داری سے ہٹ کر بھی کچھ کرتے ہیں؟ اس ورکر کا کہنا تھا کہ اگر میں وہاں آپ کو جواب دینے کے لیے بھی رُکتا تو جو چند منٹ کام رکتا وہ صرف میرا نہیں، میری قوم اور ملک کا بھی نقصان شمار ہوتا۔ مولانا وحید الدین خان اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ شخص جرمنوں کے قومی کردار کی جیتی جاگتی مثال تھا۔ اسی راز کے ذریعے 1945 کی جنگ میں مکمل تباہ ہونے کے باوجود صرف 25 سال میں جرمنی پہلے سے زیادہ طاقتور اور مستحکم ہو چکا تھا۔
اگر دیکھا جائے تو جرمنی کی اس ترقی اور تباہی کے بعد بحالی کے پیچھے راز یہی ہے کہ ملک و قوم کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو اچھے طریقے سے نبھا رہا ہے۔
دوسری مثال یہاں چین کی دیتا ہوں کہ کیسے اس ملک نے ایک تحریک پکڑی اور افیون جیسے نشے میں مست و غافل قوم جب بیدار ہوئی اور اپنا قومی کردار ادا کرنا شروع کیا تو وہ آج دنیا کے نقشے پر اُبھرتی ہوئی ایک سپر پاور کے طور پر اپنے آپ کو منوا رہے ہیں۔
اب انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم دن بہ دن ترقی کے بجائے تننرلی کا شکار کیوں ہیں۔ اقوام عالم کے پاس وہ کیا راز ہیں۔ جن کے ذریعے وہ آگے بڑھ رہی ہیں۔ اور ہمارے معاشرے میں بے چینی اور مسائل کیوں بڑھتے جا رہے ہیں۔
ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم افرادی طور پر اپنی قوم کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔ ہم اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے ہر جائز ناجائز کام کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ظاہری بات ہے، ایک فرد معاشرے کی اکائی ہوتا ہے, فرد کے بننے سے ہمیشہ قوم بنتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک مشین ہے۔ ایک مشین تب تک اچھا رزلٹ دے گی جب اس کے پرزے درست حالت میں اپنا کام کرتے رہیں گے۔ اگر پرزے ہی صحیح جگہ پر نہ ہوں یا وہ صحیح کام کرنے کے اہل نہ ہوں تو مشین اپنی مطلوبہ کارکردگی کے مطابق فائدہ نہیں پہنچا سکے گی۔
آج ہمیں دعویٰ سے ہٹ کر عملی میدان میں ایک قوم بننا ہے۔ ہمیں ہر جگہ مخلص ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا ہے۔ ہم مسلمان ہیں ہمارے پاس اخلاقیات کا اور معاشرت کا ایک مکمل نظام ہے۔ مگر ہم اس کے مطابق زندگی نہیں گزار رہے۔ ہم سڑک پر چل رہے ہوں تو نہ نظم و ضبط کا خیال رکھتے ہیں نہ دوسروں کے حقوق کا۔ اسی طرح اداروں میں کام کرنے والے اپنے فرائض کو خلوص کے ساتھ انجام نہیں دے رہے ہوتے۔ ترقی یافتہ اور پڑھی لکھی قوموں کی ہر بات سے تہذیب جھلکتی ہے۔ ان کی گفتگو کا انداز، چلنا پھرنا، کھانا پینا، گھر ، بازار، مراکز ہر جگہ نظم و ضبط دیکھنے کو ملتا ہے۔
افراد کسی لیڈر کو دیکھ کر اپنے لیے اسے رول ماڈل بناتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ عوام میں گھلنے ملنے کی کوشش کریں۔ جو فاصلے بڑھ گئے ہیں انھیں کم کریں تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت اور بڑھے۔ بازاروں میں نکلیں کہ لوگوں انھیں دیکھ کر ڈسپلن سیکھیں، عام محفلوں میں گھلیں ملیں کہ عوام ان کو دیکھ کر بات چیت کرنے کا کوئی انداز سیکھیں۔ کسی سڑک پر گاڑی خود چلائیں تاکہ عوام کو نظر آئے ہمارا رہنما قانون کی پاسداری کیسے کر رہا ہے۔ کسی بینک کسی ادارے کے سامنے لگی عوام کی قطار میں کھڑے ہو جائیں تاکہ لوگ بھی قطار میں لگ کر اپنی باری کا صبر کے ساتھ انتظار کریں۔ تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ سب کے لیے ایک ہی جیسا سسٹم ہے۔ کسی کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں کے نصاب میں اگر کہیں تہذیب، فرض شناسی اور اخلاقیات کے حوالے سے مواد ہے تو وہ بھی برائے نام۔ تعلیمی اداروں کی ترجیحات میں بھی یہ شامل نہیں کہ وہ نوجوانوں کو شعور و آگہی فراہم کریں۔
اگر ہم نے ایک ہجوم کو قوم کی میں تبدیل کرنا ہے تو پھر لوگوں کو پڑھنے لکھنے کی ترغیب دینی ہو گی۔ اداروں میں فرض شناسی کے ساتھ کام کرنے کی اور اس پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی تحریک شروع کرنی ہو گی۔ ہمارے حکمرانوں کو قانون کی پاسداری، اور نظم و ضبط کے مظاہرے کا نمونہ بن کر لوگوں کے سامنے آنا ہو گا۔ تب ہی حقیقی معنوں میں ہم تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے اور ایک ہجوم سے قوم بننے کا سفر شروع کریں گے۔ ضرورت آج اس امر کی ہے کہ ہر فرد اپنی ذات کی تکمیل میں لگ جائے تاکہ اس کے اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہمیں کؤلر کے ساتھ رکھے گلاس کے لیے رنجیر کی ضرورت ایک طویل وقت تک رہے گی۔