(سرینگر) شدت کی سردی کے باوجود شہر سرینگر سمیت وادی کے شمال و جنوب میں بجلی کی آنکھ مچولی سے ہاہا کار مچی ہوئی ہے اور شام ہوتے ہی ہر سو گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے جس سے لوگوں میں محکمہ بجلی کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے جبکہ محکمہ بجلی کی طرف سے اضافی بجلی حاصل کرنے کے داعووں کے برعکس بھی عوام کے مشکلات میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ادھر مختلف امتحانات میں شامل ہو رہے طلاب نے بجلی کی عدم دستیابی کو لیکر محکمہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان کے مستبقل کو تاریک بنانے کی سازش کی جا رہی ہے۔ وادی کے شمال وجنوب سے دن بھر موصولہ فون کالز میں صارفین نے بتایا کہ موسم سرما شروع ہونے کے ساتھ ہی بجلی کی ابتر صورتحال نے کڑا رخ اختیار کیا ہے اور بار بار بجلی کی آنکھ مچولی سے سب سے زیادہ مشکلات طلباءکو اٹھانے پڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ باقاعدگی کے ساتھ بجلی فیس بھی ادا کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود صورتحال کو تبدیل نہیں کیا جاتا اور مقامی لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی ملازمین صرف فیس حاصل کرنے کے وقت دکھائی دیتے ہیں اور بعد میں غائب ہو جاتے ہیں جبکہ ہر سال کی طرح امسال بھی وادی میں بجلی کا کوئی شیڈول نہیں ہے۔ صارفین نے کہا کہ چوری چھپے راتوں رات بجلی کے شیڈول تبدیل کئے جاتے ہیں اور اگرچہ مقامی روزناموں میں بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں لیکن زمینی سطح پر انہیں عملایا نہیں جاتا ہے جس کے نتیجے میں صارفین بجلی سپلائی کی بار بار عدم دستیابی سے تنگ آکر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس سے اچھا تھا کہ اگر بجلی ہوتی ہی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے باوجود بھی محکمہ کے افسران پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے اور صارفین کے مشکلات میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال پر عوامی حلقوں نے محکمہ بجلی کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے سوال کیا ہے کہ سردیاں روع ہونے کے ساتھ حکومت اور بیرو کریٹ جموں میں خیمہ زن ہوتے ہیں اور وادی کے عوام کو سر راہ چھوڈا جاتا ہے۔ صارفین نے کہا کہ وادی کی بجلی سے پورے ملک کو روشن کیا جاتا ہے لیکن خود یہاں سردیوں میں بجلی میسر نہیں رہتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر موسم خزاں میں صوبہ جموں بجلی سے چمک اٹھتا ہے تو وادی میں بجلی مہیا کیوں نہیں رہتی جہاں سردیوں میں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔