(لندن) اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) کے سالانہ سروے میں اس سال تل ابیب دنیا کے سب سے مہنگے شہروں میں پیرس کو پیچھے چھوڑتا ہوا گذشتہ سال کے سروے میں پانچوں نمبر سے اس سال پہلے نمبر پر آ گیا ہے۔ پیرس اور سنگاپور اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ خانہ جنگی سے متاثرہ ملک شام کا دارالحکومت دمشق اس فہرست میں بدستور دنیا کا سب سے سستا شہر ہونے کی وجہ سے آخری نمبر پر برقرار ہے۔ اس سروے میں دنیا کے 173 ملکوں میں روز مرّہ کی اشیاء کی قیمتوں اور سہولیات پر ہونے والے اخراجات کا ڈالر میں تخمینہ لگا کر ان کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ ای آئی یو نے اس سال اگست اور ستمبر کے مہینوں میں دنیا بھر کے 173 شہروں مقامی کرنسی میں قیمتوں اور سہولیات پر ہونے والے اخراجات کے اعداد و شمار حاصل کر کے کہا ہے کہ اوسط قیمتوں میں تین اعشاریہ پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ گذشتہ پانچ برس میں افراط زر کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ 2020 کے مقابلے میں اسرائیل کے شہر تل ابیب نے پانچ درجے اوپر کی جانب پہنچ کر دنیا کا مہنگا ترین شہر ہونے کا درجہ حاصل کیا۔ اسرائیلی شہر تل ابیب نے مہنگا ہونے کے اعتبار سے پیرس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پیرس اور سنگاپور ایک ساتھ دوسرے مقام پر ہیں۔ سنہ 2020 میں مہنگے ترین شہر کی پہلی پوزیشن پر تین شہر براجمان تھے، ان شہروں میں پیرس، ہانگ کانگ اور زیورچ شامل تھے۔ رواں برس کی رپورٹ میں یہ تینوں شہر مہنگے ترین ہونے کے درجے سے تنزلی کر گئے ہیں۔ پیرس اور سنگا پور ایک ساتھ دوسری پوزیشن پر ہیں۔ زیورچ تیسرے اور ہانگ کانگ چوتھا مہنگا ترین مقام ہے۔ مہنگے ترین شہروں کی درجہ بندی میں امریکا کا نیویارک سٹی چھٹی پوزیشن پر ہے جب کہ ساتویں پر جنیوا ہے۔ تل ابیب کے دنیا میں مہنگا ترین شہر ہونے کی اولین وجہ ڈالر کے مقابلے میں اسرائیلی کرنسی شیکل کی قدر میں پیدا ہونے والی غیر معمولی بہتری ہے۔ اس اسرائیلی شہر میں ٹرانسپورٹ کے کرائے جہاں بڑھے ہیں وہاں کھانے پینے کی عام ضروریاتِ زندگی کی اشیا بھی مہنگی ہو گئی ہیں۔ رواں برس کے معاشی ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کا عمل اگست اور ستمبر میں مکمل کر لیا جاتا ہے اور انہی اعداد و شمار کی بنیاد پر مختلف ممالک اور شہروں کی درجہ بندی کا سلسلہ مکمل کیا جاتا ہے۔ انہی مہینوں میں سمندر کے ذریعے سامان کی ترسیل کی قیمتوں میں بھی خاطرخواہ اضافہ ہوا تھا۔ معاشی اندازوں کے مطابق اوسط کے اعتبار سے دنیا کے قریب سبھی ممالک میں عام اشیا کی قیمتوں میں ساڑھے تین فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ کورونا وبا کی وجہ سے اشیا کی طلب یا ڈیمانڈ میں اضافہ اور سپلائی میں کمی ہے۔