(احمد آباد) گجرات کی ایک عدالت نے احمد آباد میں 2008 میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث 49 افراد میں سے 38 کو سزائے موت سنائی ہے۔ یہ سزا انڈیا کی سب سے بڑی اجتماعی موت کی سزاؤں میں سے ایک ہے۔ یاد رہے ریاست گجرات کے تجارتی مرکز میں بازاروں، بسوں اور عوامی مقامات پر 2008 میں یکے بعد دیگرے ہونے والے ان حملوں میں 56 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ جس کے بعد جمعے کو عدالت نے ان حملوں میں ملوث 49 افراد کو مجرم قرار دیا ہے۔ خود کو انڈین مجاہدین کہلانے والی ایک اسلامی انتہا پسند تنظیم نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ دھماکے گجرات میں 2002 کے مذہبی فسادات کا بدلہ تھے‘ جن میں تقریباً 1000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ سرکاری وکیل امیت پٹیل نے کہا کہ خصوصی عدالت کے جج اے آر پٹیل نے سزا پانے والے 49 میں سے 38 کو سزائے موت سنائی ہے۔ جبکہ ان کے مطابق سزا پانے والے افراد میں سے 11 کو موت تک عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس کیس میں تقریباً 80 افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جن میں سے 28 کو بری کر دیا گیا تھا جبکہ سزا پانے والے تمام افراد کو قتل اور مجرمانہ سازش کا مرتکب پایا گیا ہے۔ یہ مقدمہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جاری رہا اور1100 سے زائد افراد کو گواہی کے لیے طلب کیا گیا۔ عدالت نے اس واقعہ کے سبھی 56 ہلاک ہونے والوں کے لیے ایک ایک لاکھ روپیے، 240 زخمیوں میں سے سنگین کے لیے 50-50 ہزار اور تھوڑے زخمیوں کے لیے 25-25 ہزار کے معاوضے کا بھی التزام کیا۔ واضح رہے گجرات پولیس کی تحقیقات کے بعد اس معاملے میں پہلے 11 افراد کو 15 اگست 2008 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ تحقیقات کے دوران بتایا گیا کہ ان دھماکوں کے پیچھے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی، انڈر ورلڈ اور کالعدم تنظیم سیمی سے تبدیل ہوئی انڈین مجاہدین کا ہاتھ تھا۔ تفتیش میں یہ بھی بتیا گیا کہ مئی 2008میں احمد آباد کے قریب وٹووا علاقے میں اس واقعہ کے لیے سازش رچی گئی تھی۔ دریں اثنافیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے کہا کہ نچلی عدالت کا فیصلہ ناقابل یقین ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ جمعیۃعلماء ہند ان سزاؤں کے خلاف ہائی کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک جائے گی اور ملزمین کو پھانسی کے تختہ سے بچانے کے لئے ملک کے نامورکریمنل وکلاء کی خدمات حاصل کرے گی اور ان کے مقدمات مضبوطی سے لڑے گی، ہمیں پورایقین ہے کہ اعلیٰ عدالت سے ان نوجوانوں کومکمل انصاف ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے متعددمعاملے ہیں جن میں نچلی عدالتوں نے سزائیں دیں مگر جب وہ معاملے اعلیٰ عدالت میں گئے تومکمل انصاف ہوا، اس کی ایک بڑی مثال اکشردھام مندرحملہ کا معاملہ ہے جس میں نچلی عدالت نے مفتی عبدالقیوم سمیت تین افرادکو پھانسی اور چارلوگوں کو عمر قید کی سزادی تھی، یہاں تک کہ گجرات ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلہ کو برقراررکھاتھا، لیکن جمعیۃعلماء ہند کی قانونی امدادکے نتیجہ میں جب یہ مقدمہ سپریم کورٹ میں گیا تو یہ سارے لوگ نہ صرف باعزت بری ہوئے بلکہ بے گناہوں کو دہشت گردی کے الزام میں پھانسنے پر عدالت نے گجرات پولس کی سخت سرزنش بھی کی تھی۔ مولانا ارشد مدنی نے مزید کہا کہ اکثر بم دھماکہ جیسے سنگین مقدمات میں نچلی عدالت سخت فیصلے دیتی ہے، لیکن ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے ملزمین کو راحت حاصل ہوتی ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس مقدمہ میں بھی ملزمین کو ہائی کورٹ اور اگر ضرورت پڑی تو سپریم کورٹ سے راحت حاصل ہوگی۔انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل نچلی عدالت اور ہائی کورٹ سے پھانسی کی سزا پانے والے 11ملزمین کے مقدمات کی پیروی جمعیۃ علماء ہند نے کی تھی اور ایک بھی ملزم کو پھانسی کی سزا ہونے نہیں دی گئی، ہمیں امید ہے ہم ملزمین کو پھانسی کی سزاؤں سے بچانے میں کامیاب ہونگے۔