امت نیوز ڈیسک //
نئی دہلی: مرکزی حکومت نے اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لیے مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ (ایم اے این ایف) کو اس تعلیمی سال سے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیلو شپ یو پی اے حکومت کے دوران سچر کمیٹی کی سفارشات کو لاگو کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی۔دی ہندو کے مطابق، مرکزی وزیراسمرتی ایرانی نے جمعرات کو لوک سبھا میں کہا کہ یہ فیصلہ اس لیے لیا گیا کیونکہ ایم اے این ایف کئی دیگر اسکیموں کے ساتھ اوور لیپ کر رہی تھی۔ایرانی نے کہا، چونکہ ایم اے این ایف اسکیم حکومت کی طرف سے لاگو کی گئی اعلیٰ تعلیم کے لیے کئی دیگر فیلوشپ اسکیموں کے ساتھ اوورلیپ کرتی ہے اور اقلیتی طلبہ کو پہلے سے ہی اس طرح کی اسکیموں کے تحت کور کیا گیا ہے، اس لیے حکومت نے 2022-23 سے ایم اے این ایف اسکیم کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس اسکیم کو نافذ کرنے والے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اس کے تحت 2014-15 اور 2021-22 کے درمیان تقریباً 6722 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا تھااور اس کے تحت 738.85 کروڑ روپے کی فیلو شپ تقسیم کی گئی۔
اس سے قبل جولائی کے مہینے میں دی ہندو نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ریسرچ اسکالرز کو فیلو شپ ملنے میں کئی ماہ کی تاخیر ہوئی تھی۔ وہیں طلبہ نے اس اسکیم کے جاری رہنے پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔اسی مہینے میں ایرانی نے پارلیامنٹ کو بتایا کہ 20-2019 سے مرکزی وزارت اقلیتی امور کی طرف سے شروع کی گئی زیادہ تر اسکیموں کے تحت فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔جمعرات کو ایرانی نے کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ٹی این پرتاپن کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایم اے این ایف کے علاوہ اس طرح کی تمام اسکیمیں اقلیتوں سمیت تمام برادریوں کے امیدواروں کے لیے کھلی ہیں، لیکن اقلیتی طلبہ کو ملنے والی فیلوشپ کی تفصیلات صرف ایم اے این ایف کے تحت ہی لی جاتی ہیں۔پرتاپن نے کہا کہ وہ پارلیامنٹ میں ایم اے ایف کو روکنے کا معاملہ اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا یہ ناانصافی ہے۔ بہت سے ریسرچ اسکالرز اس قدم سے آگے پڑھنے کا موقع کھو دیں گے۔دریں اثنا، نیشنل اسٹوڈنٹس یونین کے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر این ایس عبدالحمید نے کہا کہ یہ مسئلہ کئی اقلیتی طلبہ کو متاثر کرے گا جنہیں او بی سی نہیں ماناجاتا ہے۔حمید نے کہا، اقلیتوں، او بی سی، دلتوں اور آدی واسیوں کے لیے اسکالرشپ اوورلیپ ہو جاتی تھی کیونکہ درخواست دہندگان ایک ہی سماجی یا مذہبی پس منظر سے ہو سکتے ہیں۔ ہم مرکز سے بے ضابطگیوں کو دور کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ بے ضابطگیوں کو دور کرنے کے بجائے اسکالرشپ کو مکمل طور پر بند کردیا گیا۔ اس سے بہت سے مسلم، سکھ اور عیسائی طلبہ متاثر ہوں گے جنہیں مختلف ریاستوں میں اوبی سی نہیں مانا جاتا ہے۔غور طلب ہے کہ اس سے پہلے پچھلے مہینے حکومت نے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ اب سے پہلی سے آٹھویں جماعت تک کے اقلیتی طلبہ کو پری میٹرک اسکالرشپ نہیں دی جائے گی۔مرکزی حکومت نےرائٹ ٹو ایجوکیشن قانون کا حوالہ دیتے ہوئے ایک نوٹس جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ اس قانون کے تحت پہلی سے آٹھویں جماعت کے طلبہ کو لازمی تعلیم فراہم کر رہی ہے، اس لیے اسکالرشپ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔تاہم، مختلف اپوزیشن جماعتوں سمیت اقلیتی تنظیموں نے اس کی مخالفت کی تھی۔کانگریس کے رکن پارلیامنٹ رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا، کئی دہائیوں سےایس سی ایس ٹی بیک گراؤنڈ کے بچوں کو پہلی سے 8ویں جماعت تک اسکالرشپ مل رہی ہے، لیکن حکومت نے 2022-23 سے اسکالرشپ کو روک دیا ہے، جو غریبوں کے خلاف ‘سازش’ ہے۔انہوں نے کہا، ‘پچھلے آٹھ سالوں سے بی جے پی حکومت نے پسماندہ لوگوں کے حقوق پر مسلسل حملہ کیا ہے، چاہے وہ ایس سی/ایس ٹی/او بی سی-اقلیتوں کے بجٹ میں کمی ہو یا سنگین مظالم۔ ہم اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔ یہ فیصلہ فوراً واپس لیا جائے۔بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے رہنما کنور دانش علی نے دعویٰ کیا کہ حکومت نے اقلیتی طلبہ (کلاس 1-8) کو دی جانے والی اسکالرشپ کو روک کر ان غریب بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کا ایک نیا طریقہ تلاش کیا ہے۔ علی نے ٹوئٹ کیا،یہ مت بھولیے کہ تعلیم یافتہ بچے خواہ کسی بھی برادری سے تعلق رکھتے ہوں، ملک کو آگے لے جاتے ہیں۔ان کے علاوہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) اور جمعیۃ علماء ہند نے بھی اسکالرشپ کو محدود کرنے کے فیصلے پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔( دی وائر اردو)