امت نیوز ڈیسک //
خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے وال اسٹریٹ جرنل کے حوالے سے بتایا کہ دو امریکی سینیئر افسران کا کہنا ہے کہ امریکہ جمعے کے روز تقریباً 170 چینی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرے گا جو واشنگٹن کے بقول بحرالکاہل میں غیر قانونی ماہی گیری کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ بیجنگ کی جانب سے سمندری حدود میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے مقصد سے ماہی گیری کے بیڑے کو حد سے زیادہ استعمال کرنے کے سبب خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ پابندیاں گلوبل میگنیٹسکی ایکٹ کے تحت نافذ کی جائیں گی۔ سن 2016 کا یہ قانون امریکی حکومت کو بیرون ملک دنیا بھر میں ان سرکاری افسران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اختیار دیتا ہے جو مبینہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں۔ ان پابندیوں کے تحت کمپنیوں کے اثاثوں کو منجمد کیا جا سکتا ہے اور ان سے وابستہ افراد کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
وائٹ ہاوس کے ترجمان جان کربی نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ایران یوکرین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے روس کو فوجی ڈرونز مسلسل فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ اس کی مذمت کرتا ہے۔
امریکی حکام کے مطابق ان پابندیوں کے تحت روسی دفاعی صنعت سے وابستہ متعدد کمپنیوں کو نشانہ بنایا جائے گا جو ایرانی ڈرونز کی خریداری میں ملوث ہیں۔
ترکی کے خلاف بھی پابندیاں
بائیڈن انتظامیہ نے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن کے انتہائی قریبی معروف تاجر سیتکی ایان اور ان کی کمپنیوں پر بھی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ امریکی وزارت خزانہ نے جمعرات کے روز بتایا کہ سیتکی ایان پر نیز ان کے اور ان کے خاندان کے افراد سے تعلق رکھنے والی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔
یہ پابندیاں ایرانی تیل کی فروخت پر امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے کے سبب نافذ کی جا رہی ہیں۔ سیتکی ایان اور ان کے خاندان کے افراد کی کمپنیوں نے مبینہ طور پر ایران کے پاسداران انقلاب کو مالی تعاون کے لیے لاکھوں ڈالر کے تیل فروخت کرنے میں مدد کی ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ کا مزید کہنا ہے کہ ایان اور ان کی کمپنیوں نے تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدنی سے پاسداران انقلاب کے علاوہ لبنان کی حزب اللہ تحریک کی بھی مدد کی۔ امریکہ نے ان دونوں تنظیموں کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔