امت نیوز ڈیسک //
جموںکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے منگل کو کہا کہ نیشنل کانفرنس اگر اسمبلی انتخابات کے بعد مرکز کے زیر انتظام علاقے میں حکومت بناتی ہے تو متنازعہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو منسوخ کر دے گی۔
عمرعبداللہ نے اننت ناگ ضلع کے ڈورو میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کہا”مرکز نے یہاں صرف وہی (پرانے) قوانین رکھے ہیں جن کا استعمال لوگوں کو ہراساں کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ ملک میں کہیں بھی (عوامی) سیفٹی ایکٹ نہیں ہے…. یہ صرف جموں اور کشمیر میں ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا ہے اور میں دہراتا ہوں جب نیشنل کانفرنس کی حکومت آئے گی، پہلے دن یہ قانون منسوخ کر دیا جائے گا“۔
پی ایس اے سب سے پہلے اس وقت کی جموں و کشمیر حکومت نے۱۹۷۸ میں نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ کی سربراہی میں لکڑی کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے نافذ کیا تھا۔
یہ قانون، جو بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک حراست میں رکھنے کا انتظام کرتا ہے، بعد میں۱۹۹۰ میں جموں و کشمیر میں عسکریت پسندی کے پھوٹ پڑنے کے بعد دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔
دوسری جانب جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس نے عمرعبداللہ کے اس بیان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کسی یونین ٹیریٹری کی اسمبلی کو امن عامہ سے متعلق قوانین میں ترمیم یا تخلیق کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون نے سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا”نیک نیتی سے وضاحت درکار ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ جموں کشمیر تاریخ کے مطابق ایک یو ٹی ہے۔ کیا یو ٹی اسمبلی کے پاس امن عامہ سے متعلق قوانین میں ترمیم یا تخلیق کرنے کا اختیار ہے؟ یاپی ایس اے۔ تو جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟“۔
لون نے کہا”کیسی ستم ظریفی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اس سخت قانون کوبنایا، وہ چاہتے ہیں کہ ہم یقین کریں کہ وہ اسے منسوخ کر دیں گے۔ اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی یہ ہے کہ یو ٹی اسمبلی کے پاس ایسی کسی بھی منسوخی کے اختیارات نہیں ہیں۔ اپنے دانتوں سے جھوٹ بولنا ان لوگوں کی ایک مستقل خصوصیت رہی ہے جنہوں نے اس طرح کے قوانین لکھے ہیں“ ۔
لون نے اس قانون کو نافذ کرنے پر این سی سے معافی کا بھی مطالبہ کیا۔
پیپلز کانفرنس کے صدر نے کہا”کیا ہم کم از کم پی ایس اے کے تخلیق کاروں سے معافی مانگ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں آج تک ہزاروں کشمیریوں کو جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے۔ فیصد کے لحاظ سے اس قانون کے تحت جموں سے جیل میں بند لوگوں کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ قانون صرف کشمیریوں کےلئے تھا۔“