لوگوں کو بلا خلل اور وافر مقدار میں ضروریات زندگی بہم رکھنا اور ان کی قیمتوں کو اعتدال پر رکھنا سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس اہم ذمہ داری کو نبھانے کے لئے جموں و کشمیر میں امور صارفین اور تقسیم کاری کے نام سے ایک الگ محکمہ باضابطہ طور پر کام کر رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ محکمہ 1947ءسے پہلے کے حکمرانوں کی دین کے جس کے لئے ان حکمرانوں کو ہمیشہ کے لئے یاد رکھا جائے گا! اس لئے کہ ان حکمرانوں نے خطے کی کٹھن جغرافیائی دشواریوں اور ناموافق موسمی صورتحال کے پیش نظر ہی یہ تاریخی تحفہ جموں و کشمیر کے عوام کو دیا تھا اور خوشی کی بات یہ ہے کہ عوامی راج میں اس محکمے کو اور زیادہ فعال اور کارگر بنایا گیا جسکے سبب ہی یہ محکمہ اپنی ذمہ داریاں زیادہ خوش اسلوبی کے ساتھ نبھانے میں کامیاب و سرخرو ثابت ہوا۔ یہاں تک کہ نامسائد حالات میں بھی یہ محکمہ لوگوں کی اُمیدوں پر کھرا اُترا لیکن جب سے ملک میں نئی خوراکی پالیسی کا نفاذ عمل میں لایا گیا تب سے محکمہ امور صارفین و تقسیم کاری اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام ثابت ہورہا ہے۔ محکمہ ہذا کی کارکردگی پر کس قدر جمود چھایا ہوا ہے اس کا اندازہ سرکاری راشن ڈیپووں پر چڑے تالوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ضروریات زندگی کی تقسیم کاری کا یہ حال ہے کہ پہلے کھانڈ کی تقسیم کاری کو روک لیا گیا، مٹی کے تیل میں بھاری تخفیف کی گئی اور اب راشن کے کوٹے کو اس حد تک گھٹایا گیا کہ یہ نہ ہونے کے برابر رہا، جس کے خلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں لیکن سرکار عوام کی ناراضگی کا نوٹس لینے کے لئے تیار نظر نہیںآرہی ہے۔ اور حد یہ ہے کہ اب راشن برائے نام فراہمی کا سلسلہ بھی معطل رکھا گیا ہے۔ انتظامیہ عام لوگوں کو درپیش صورتحال سے پوری طرح لاتعلق بنا ہوا ہے جبکہ عام لوگوں کو ذخیرہ اندوزوں اور بلیک مارکیٹنگ کرنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ حالانکہ متعلقہ محکمے کی یہ روایت رہی ہے کہ موسم گرما میں ہی سردیوں کے موسم کے دوران درکار ضروریات زندگی کا ذخیرہ کیا جاتا تھا جس کے سبب موسم سرما میں بھی عوام کو راشن اور دیگر ضروریات زندگی بلا خلل فراہم کی جاتی تھیں۔ لیکن اب کی بار متعلقہ محکمہ صارفین کو راشن کی برائے نام فراہمی کو جاری رکھنے میں بری طرح ناکام ثابت ہورہا ہے جس کے سبب عام صارفین جن کی قوت خرید ناموافق موسمی صورتحال اور کچھ دیگر وجوہات کے سبب پہلے ہی جواب دے چکی ہے، کو پوری طرح بلیک مارکیٹنگ کرنے والے ذخیرہ اندوزوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔کووڈکی وجہ سے اقتصادات ا ور معیشت پر اثرات کی وجہ سے جموں وکشمیر کے عوام ازحد متاثر ہوچکے ہیں، ایسے حالات میں عام لوگوں کو راحت پہنچانے کے بجائے ان سے نوالہ چھیننا بہت بڑا عوام کُش اور ظالمانہ اقدام ہے۔حکام کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں از خود مداخلت کرکے راشن کی تقسیم کاری کے نظام کو دوبارہ بحال کریں تاکہ غریب عوام کو دو وقت کی روٹی دستیاب رہے۔