شاہد لطیف….
کانگریس پارٹی کو چھوڑدینے کے فیصلے نے جہاں آزاد صاحب کی آزاد خیالی کو نئی جلا بخشنے کا کام کیا تھا وہیں پر ان کے فیصلے سے نالاں ان کے ناقدین جن میں خود کانگریس پارٹی کے کئی لیڈران بھی شامل ہیں ‘ان پر بی جے پی ایجنٹ ہونے کاالزام لگارہے ہیں۔
اونٹ کے بارے میں عربوں کا ایک قول اردو میں بھی خاصا معروف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ” اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی“۔ یہ کہاوت موجودہ دور میں کشمیر کی سیاست پر بالکل فٹ بیٹھتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں کچھ بھی عام سیدھے طریقے سے کام نہیں کرتا ہے۔ویسے بھی کسی نے کہا تھا کہ کشمیر میں سفیدے کے درخت کے سوا کچھ سیدھا نہیں! یہی کہاوتیں کانگریس پارٹی کے سابق لیڈر،ریاست جموں وکشمیر کے سابق وزیراعلیٰ ،سابق مرکزی وزیراور آجکل اپنی بنائی ہوئی پارٹی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی (ڈی اے پی) کے چیئرمین جناب غلام نبی آزاد کے بدلتے ہوئے بیانات اور موقف پر چسپان کی جاسکتی ہیں۔ جب آزاد کانگریس سے نکل کر اپنی خود ساختہ جماعت کا اعلان کررہے تھے اور ان پر آر ایس ایس، بی جے پی کا مہرہ ہونے جیسے الزامات لگ رہے تھے، جموں سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی مبصر اور لکھاری نے تحریر کیا تھاکہ”ضلع ڈوڈہ کے دور دراز علاقے بھلیسا سے تعلق رکھنے والے غلام نبی بٹ نے کانگریس میں آکر اپنا تخلص” آزاد“ رکھ تو دیا لیکن وہ کئی دہائیوں تک کانگریس جماعت میں” غلام“ بنے رہے۔اب جب کہ وہ کانگریس سے آزادی پاچکے ہیں ان کے پاس موقع ہے کہ وہ ثابت کردیں کہ وہ حقیقتاً آزاد ہوچکے ہیں۔ ایسا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ آزاد سیاست کریں جس میں جموں وکشمیر کے سارے خطوں ، سارے سماجی طبقات کی اُمنگوں اور آرزووں کی ترجمانی ہو بصورت دیگر ان کی یہ دوسری سیاسی اننگ بھی ان کے پہلے والے دور غلامی کی توسیع کے طور پر ہی یاد رکھی جائے گی“۔
اس تبصرے کو ذہن میں رکھیں اور پچھلے کچھ عرصے میں آزاد کی جانب سے جاری کئے گئے بیانات یا انٹرویوز کو ملاحظہ کریں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ غلام نبی بٹ المعروف آزادفی الحقیقت ’آزاد ‘ نہیں ہوئے ہیں بلکہ اس معاملے میں دلی ہنوز دور است ہی ہے۔ کانگریس پارٹی کو چھوڑدینے کے فیصلے نے جہاں آزاد صاحب کی آزاد خیالی کو نئی جلا بخشنے کا کام کیا تھا وہیں پر ان کے فیصلے سے نالاں ان کے ناقدین جن میں خود کانگریس پارٹی کے کئی لیڈران بھی شامل ہیں ‘ان پر بی جے پی ایجنٹ ہونے کاالزام لگارہے ہیں۔ پہلے پہلے کانگریس پارٹی اور دوسرے لوگوں کا یہ الزام عوام الناس کی آنکھ کو نہیں بھاتا تھا لیکن کشمیر آکر جب آزاد صاحب نے آئین کی دفعہ370 کی بحالی کے ضمن میں منفی بیان دے دیا تو ان کے ناقدین ،ان کے قدردانوں پر چڑھ گئے اور ایک بار پھر ان پر دائیں بازو کی سیاست کا مہرہ بننے کا الزام لگانے لگے۔ یوں تو غلام نبی آزاد جموںو کشمیر کے ان چند گنے چنے سیاست دانوں میں شمار ہوتے رہے ہیں جن کی عوامی حلقوں میں کچھ ساکھ بہتر تھی لیکن حال ہی میں ”ٹائمز ناﺅ“ چینل کو دئے گئے انٹرویو میں جو انکشافات موصوف نے کئے ہیں اس سے ان کے ناقدین کو ایک بار پھر ان کے خلاف بی جے پی کا مہرہ ہونے کا الزام لگانا قدرے آسان ہوگیا ہے۔
اپنے مذکورہ انٹرویو میں غلام نبی آزاد نے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ اور سابق وزیر داخلہ شیو راج پاٹل پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ ریاست جموںو کشمیر کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو صراحتاً لکھا تھا کہ جموںو کشمیر میں کئی بھارت نواز سیاست دان اور لیڈر ڈبل کراس کرتے ہوئے ایک طرف تو بڑے بھارت نواز بنے پھرتے ہیں لیکن دوسری جانب یہ لوگ عسکریت پسندوں کے بھی ہمنشین و ہم راز ہیں۔ ان کا الزام تھا کہ ان کے خط کے بعد بھی دہلی میں بیٹھی کانگریس سرکار نے کوئی حرکت نہیں کی اور ملزمین کو یونہی جانے دیا۔
غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کے وزیر اعلی کے طور پر انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم ہند ڈاکٹر منموہن سنگھ اور مرکزی وزیر داخلہ شیوراج پاٹل کو ایک رپورٹ بھیجی تھی جس میں ریاست کے کچھ سیاسی رہنماوں کے عسکریت پسندوں کے ساتھ روابط کے بارے میں بتایا گیا تھالیکن مرکزی قیادت نے اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ آزاد نے کہا کہ جب وہ جموں و کشمیر میں مخلوط حکومت میں وزیر اعلیٰ تھے، انہیں کچھ مرکزی دھارے کے سیاسی رہنماوں کے روابط کے بارے میں اطلاعات موصول ہوئیں کہ وہ عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں۔چونکہ میں سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرتا، میں نے تمام ٹھوس ثبوت اکٹھے کرنے کی کوشش کی اور پھر اس وقت کے وزیر اعظم اور اس وقت کے وزیر داخلہ کو ایک تفصیلی رپورٹ بھیجی۔ لیکن بدقسمتی سے اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عسکریت پسندوں کے تئیں مرکز کی اس وقت کی کانگریس حکومت کی نرم پالیسی کی وجہ سے ہوا، تو آزاد نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہیں گے کہ یہ اس وقت کی حکومت کے نرم رویہ کی وجہ سے تھا، لیکن کچھ مرکزی دھارے کے لیڈر ڈبل کراس کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ان کے دہشت گرد تنظیموں سے روابط تھے اور ساتھ ہی وہ خود کو عظیم قوم پرست اور مرکزی دھارے کے لیڈروں کے طور پر پیش کر کے نئی دہلی کو بے وقوف بنا رہے تھے۔ان مبینہ ڈبل کراس لیڈران کے کیفر کردار تک نہ پہنچنے پر کف افسوس ملتے ہوئے آزاد کا کہنا تھا کہ ”مجھے نہیں معلوم کہ ایسے لوگ کب اپنے انجام کو پہنچیں گے۔“یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جموں و کشمیر میں ایسے لوگ اب بھی کام کررہے ہیں، آزاد نے کہاکہ میں ان افراد پر مذید کوئی تبصرہ کرنا پسند نہیں کروں گا لیکن ہمیں اس حکومت سے بہت امیدیں تھیں جو اب تک پوری نہیں ہوئی ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اپنی عوامی ساخت اور جڑوں کو پھیلانا چاہتی ہے اور غالباًانہی مجبوریوں کے چلتے اس ضمن میں کچھ نہیں کیا جارہا ہے۔
غلام نبی آزاداپنے ان بیانات سے مودی جی اور انکی سرکار کو خوش کرنا چاہتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بیان مودی جی کے پیشرو کے ساتھ ساتھ جملہ ریاستی اداروں پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کررہا ہے۔
آزاد کے اس بیان کے رد عمل میں جموں وکشمیر پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر وقار رسول وانی کا کہنا ہے کہ آزاد صاحب یہ بیانات بی جے پی کی ایما پر دے رہے ہیں اور ان کا واحد مقصد الیکشن میں بی جے پی کی مدد کرنا ہے۔ وقار رسول وانی کا مذید کہنا ہے کہ آزاد یہ مذکورہ بیانات فراڈ ہیں اور اگر جموںو کشمیر کی مرکزی دھارے والی جماعتوں میں کوئی وطن فروش شامل ہے تو انہوں نے اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں انہیں کیوں بے نقاب نہیں کیا اور ان کا کیوں مواخذہ نہیں کیا۔
غلام نبی آزادکے مذکورہ بیان پر تبصرہ کرنے کے لئے ہم نے جب ایک مقامی سیاسی مبصر کو فون کیا تو انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس شخص کو کشمیری بڑا زیرک اور اصول پسند سیاست دان سمجھتے تھے وہ بھی مبینہ طور پرابن الوقت اور روایتی سیاست کارہی نکلا ہے۔غالباً موصوف 2008ءمیں اپنی حکومت کی برخاستگی کی پرخاش لئے ہوئے ہیں یا پھر انہیں وہ سارے چہرے مہرے ارد گرد دکھائی دیتے ہیں جو گزرے زمانے میں علیحدگی پسندوں کے یار اور آجکل بی جے پی کی شمع کے ارد گرد منڈلاتے پروانے بنے ہوئے ہیں اور یوں ان کے راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مبصر کا کہنا ہے کہ14 برس قبل جب غلام نبی آزاد جموں وکشمیر کے وزیر اعلیٰ تھے،دنیا کے سیاسی حالات،برصغیر اور خود جموں وکشمیر کے معروضی زمینی حالات ،آج سے یکسر مختلف تھے۔ تب ہند و پاک کے سربراہاں واجپائی مشرف کے شروع کئے گئے امن گفت و شنید کے سلسلے کو ہم آہنگی سے آگے بڑھارہے تھے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جموں وکشمیر میں علیحدگی پسندوں کی طوطی بولا کرتی تھی۔ کوئی ان سے پوچھے کہ اگر ان کے دل میں حب الوطنی کا اتنا ولولہ اور جوش تھا تو 14 برس تک اسے دبائے رکھنے کا کیا مطلب ہے۔ہوسکتا ہے کہ جناب آزاد صاحب آج ان بیانات سے مودی جی اور انکی سرکار کو خوش کرنا چاہتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بیان مودی جی کے پیشرو بی جے پی وزیراعظم جناب اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ ساتھ جملہ ریاستی اداروں پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کررہا ہے۔ جس انٹرویو کی یہاں بات ہورہی ہے اس میں جہاں غلام نبی آزاد کانگریس پارٹی اور جموں وکشمیر کی سیاسی جماعتوں کے لیڈران پر گھمبیر الزامات عائد کرچکے ہیں وہیں پر جب دوران انٹرویو ان سے بی جے پی سرکار اور اسکے لیڈران کے کچھ بیانات پر پوچھا گیا تو ان کا مشفقانہ یا کم از کم ناصحانہ انداز بیان ہی بہت کچھ کہہ گزرتا ہے۔ جہاں وہ کانگریس وزیراعظم اور وزیر داخلہ کو کٹہرے میں کھڑا کررہے ہیں اور کشمیر کے کچھ لیڈران کو کیفر کردار تک نہ پہنچانے پر تلخی اور تندی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں وہیں پر مرکزی وزیرداخلہ کے بیانات کا دفاع کرتے بھی نظر آتے ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے ریمارکس کی تائید کرتے ہوئے کہ ہندوستان کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان سے نہیں بلکہ اپنے نوجوانوں، اپنے لوگوں سے بات کرے گا، آزادکا کہنا تھا کہ ہم باہر والوں سے کیوں بات کریں۔ وہ حالات کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے مطلب کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں باہر کے لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں کھیلنا چاہیے۔ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کا مسئلہ ہے اور اسے اپنے نوجوانوں اور اپنے لوگوں سے بات کرکے حل کیا جانا چاہیے۔ اپنے لوگوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے سب سے پہلے کوششیں ہونی چاہئیں۔ آزاد صاحب کی یہ باتیں سر آنکھوں پر۔لیکن ان سے سوال کرنا تو بنتا ہے کہ اگر یہی اپروچ صحیح ہے تو وہ اس وقت کیوںکر بھارت و پاکستان کے درمیان مزاکراتی عمل کو سب دکھوں کا مرہم اور علاج سمجھتے تھے جب مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی اور ریاست میں وہ کانگریس کے وزیراعلیٰ تھے۔ مذید برآں اسی انٹرویو میں حضرت سیاچن چوٹی پر ہندو پاک کی فوجوں کی مشکلات کا رونا روتے ہوئے فرماتے ہیں کہ پاکستان کے عوام تو امن کے داعی ہیں لیکن وہاں کی فوج ایسا نہیں چاہتی۔آزاد کا ماننا ہے کہ پاکستان کی فوج اپنے ذاتی مفادات کی وجہ سے خطے میں امن نہیں چاہتی اور پاکستان کی عوام بھی اسے اچھی طرح جانتی ہے۔ ”میں سیاچن گلیشیئر گیا تھا جہاں ہمارے فوجی بھاری برفباری اور خراب موسمی حالات میں رہ رہے ہیں۔ یہ کسی بھی شخص کے لیے ورچوئل (مجازی)جہنم ہے جہاں درجہ حرارت40 ڈگری سے نیچے گر جاتا ہے۔ ان کے جوان بھی اس سب کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہے وہ پاکستان ہوں یا چین، ہمارے اور ان ممالک کے لیے بھی اچھے ہیں۔“ اب بتائے ! موصوف کی کس بات پر عمل کیا جائے۔
اسی انٹرویو میں موصوف امریکہ میںسیاہ فام صدر اور برطانیہ میں ہند نڑاد وزیراعظم بنائے جانے کی مثالیں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بھارت کو بھی ہندومسلم اور فرقہ وارانہ سیاست کو خیر باد کرنے چاہئے کیونکہ ان بنیادوں پر ہونے والے انتخابات ملک کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا سبب بنتے ہیں۔ اسی انٹرویو میں سابق وزیراعلیٰ دفعہ370 کی بحالی وغیرہ پر بھی گویا ہوئے ہیں اور کلہم طور پر احاطہ کیا جائے تو پورے کاپورا انٹرویو تضادات کا مجموعہ قرار پاسکتا ہے۔ ایک اور سیاسی مبصر کے سامنے میں نے جب یہ سوال رکھا کہ آخر آزاد صاحب چاہتے کیا ہیں۔ ان کی منشا کیا ہے؟ سیاسی مبصر نے بتایا کہ ان کا ماننا ہے کہ آزاد صاحب کنفیوڑن کا شکار ہیں۔ جموںو کشمیر میں ان کی نئی سیاسی جماعت کو جو پذیرائی ان کے خیال میں ملنی چاہئے تھی وہ نہیں مل رہی۔ آج کی تاریخ میں وہ جموں خطے میں ووٹ کی تقسیم کرکے گپکار الائینس کےلئے کھیل خراب توکرسکتے ہیں لیکن اس سے وہ بھی کوئی منافع حاصل نہیں کرپائیں گے۔ انہیں ملے گا تو کچھ نہیں ہاں بی جے پی کا راستہ آسان بناکر وہ اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو ثابت ضرور کردیں گے۔ لیکن اس سکے کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اگر گپکار الائینس آزاد کی مدد لئے بناہی جموں خطے میں بی جے پی کی سیٹوں کو کم کرنے میں کامیاب ہوگئی تو بھی آزاد صاحب کے لئے معاملہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ اسی لئے غالباً گوناگوں والی کیفیت میں ایک طرف توکانگریس، گپکار الائینس میں شامل لیڈران سمیت دوسرے کشمیری لیڈران پر الزام دھر رہے ہیںاور ساتھ ہی ساتھ بی جے پی کے حوالے سے کچھ کھٹا کچھ میٹھا والا نسخہ اور دوسری جانب 370کی بحالی وغیرہ کے بارے میں باتیں کرکے میدان کے چہار اطراف میں کھیلنے کی کوشش فرمارہے ہیں۔ اس سارے عمل سے کچھ ہو نہ ہو، آزاد صاحب کی امیج ضرور مجروح ہوئی ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ اپنی ”آزادی‘ ‘ کو مسدود و محدود کررہے ہیں۔
سیاسی جماعتیں ہوں یا سیاسی مبصرین، ان کی آرا ، ان کے بیانات وغیرہ سے اتفاق یا اختلاف کرنا ہمارا بنیادی حق ہے۔ کس کے دل میں کیا ہے یہ صرف اللہ ہی کو معلوم ہے لیکن کہتے ہیں کہ سیاست ذاتی ادراک کی تعمیر اور ممکنات کے حصول کا فن ہے۔اگر آپ کا سیاسی نظریہ آپ کی ذاتی عزت و ناموس کو مجروح کررہا ہے اور آپ کے مطلق عوام الناس میں مثبت کے بجائے منفی رجحانات کو جنم دے رہاہے ،تو یقیناً کچھ گڑ بر ہے جسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔بہرحال وقت کا پہیہ سب معاملات کو ظاہر و باہر کرتا ہے اور یقیناً آنے والا وقت غلام نبی آزاد کی سیاست کو بھی ظاہر و باہر کرکے رہے گا۔
سیاست ذاتی ادراک کی تعمیر اور ممکنات کے حصول کا فن ہے۔اگر آپ کا سیاسی نظریہ آپ کی ذاتی عزت و ناموس کو مجروح کررہا ہے اور آپ کے مطلق عوام الناس میں مثبت کے بجائے منفی رجحانات کو جنم دے رہاہے ،تو یقیناً کچھ گڑ بر ہے جسے درست کرنے کی ضرورت ہے۔