امت نیوز ڈیسک //
سرینگر: وادیٔ کشمیر میں پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دینے اور کشمیری مصنوعات کو بین الاقوامی بازار فراہم کرنے کے لیے سرکار نے مزید اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب ہریسہ، خانیاری ساگ، گشتابہ اور سیب کی بھی جیو ٹیگنگ کے زمرے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ان چیزوں کا جعلی کاروبار کرنے والوں کے خلاف اقدامات اٹھائے جائیں۔ ہنڈی کرافٹس، قالین، نمدہ، سوزنی، پشمینہ، شال بافی اور زعفران وغیرہ کو جی آئی مارک کے زمرے میں لانے کے بعد اب سرکار نے ایک اہم فیصلے کے تحت، ہریسہ، خانیاری ساگ، گشتابہ اور سیب کو بھی اس زمرے میں لانے کا فیصلہ لیا ہے۔ ایسے میں ان اشیاء کے آرڈ میں جعلی اشیاء فروخت کرنے میں روک لگ سکے گی اور بین الاقوامی سطح پر کشمیری کی ان اشیاء کو بازاری سہولیات بھی میسر ہوپائے گی ۔
ہریسہ، خانیاری ساگ، گشتابہ اور سیب کی جیو ٹیگنگ سے ان اشیاء سے وابستہ افراد کے کام کو فروغ حاصل ہوگا جب کہ معاشی اور اقتصادی فائدہ بھی انہیں ملے گا۔ جموں وکشمیر انتظامی کونسل نے آنے والے دنوں میں مزید اشیاء کو جیو ٹیگنگ کے زمرے میں لانے کا فیصلہ لیا ہے تاکہ پرائیوٹ سیکٹر کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری پر بھی قابو پایا جاسکے۔
قبل ازیں ایک عرصہ قبل نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری ایڈووکیٹ علی محمد ساگر نے الزام لگایا تھا کہ جموں و کشمیر کا ہر ایک شعبہ اس وقت تنزلی کا شکار ہے۔ وادیٔ کشمیر میں پرائیویٹ سیکٹر کو فروغ دینے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ جب کہ حکمران اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگ تعمیر و ترقی اور امن و امان کے بڑے بڑے دعوے کر رہے ہیں لیکن زمینی سطح پر حالات ان دعوﺅں کے عین برعکس ہیں۔ جموں و کشمیر میں اس وقت 50 ہزار سے زائد خالی آسامیاں پڑی ہیں۔ گزشتہ 3 برسوں سے ان بھرتیوں کو سریع الرفتاری سے پُر کرنے کے اعلانات تو کیے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی قدم نہیں اُٹھایا جا رہا ہے۔ علی محمد ساگر نے الزام میں مزید کہا تھا کہ مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ گزشتہ 3 برسوں سے بے روزگاری حد سے تجاوز کرگئی ہے لیکن اس کا سدباب کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایا جارہا ہے۔ علی محمد ساگر نے کہا تھا کہ حد سے زیادہ مہنگائی اور کساد بازاری نے بھی یہاں کے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں جس کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑرہا ہے۔