امت نیوز ڈیسک //
جموں و کشمیر پولیس سر براہ دلباغ سنگھ نے منگل کو کہا کہ پولیس کو راجوری حملوں کے سلسلے میں کچھ اہم سراغ ملے ہیں اور جلد ہی معاملے کو حل کر دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پلوامہ ضلع سے تعلق رکھنے والے لشکر طیبہ کے دو عسکریت پسند آج بڈگام میں ایک مختصر جھڑپ میں مارے گئے ہیں، جو ضلع سری نگر کی طرف بڑھنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
خبر رساں ایجنسی ۔ کشمیر نیوز آبزرور کے مطابق ٹی آرسی سری نگر میں جموں و کشمیر پولیس شہداء میموریل فٹ بال ٹورنامنٹ کی اختتامی تقریب کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) نے کہا کہ یہ آپریشن کل بڈگام میں شروع کیا گیا تھا، لیکن کچھ دیر تک فائر نگ کے بعد جنگجوؤں نے چکھا دے دیا اور فرار ہو گئے تاہم آج پھر ان کا سراغ لگایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بڈگام میں کورٹ روڈ پر ایک ناکے کے دوران عسکریت پسندوں کا سراغ لگایا گیا اور انہیں چیکنگ کے لیے رکنے کو کہا گیا لیکن انہوں نے گاڑی سے چھلانگ لگا کر فور سز پر فائر نگ کی اور موقع سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ جس دوران لشکر طیبہ اور پلوامہ ضلع سے تعلق رکھنے والے دونوں جنگجو مارے گئے۔
انہوں نے مزید کہا، “ دونوں عسکریت پسند ضلع سری نگر کی طرف بڑھ رہے تھے اور اُن کے مقاصد کی وجوہات کی تحقیقات جاری ہیں۔ وہ اپنے پر انے ٹھکانے سے نکلے تھے اور نئے ٹھکانے کی تلاش میں تھے”۔ راجوری حملے کے بارے میں پولیس سربراہ نے کہا کہ تفتیش کے دوران پولیس کو کچھ اہم سراغ ملے ہیں۔ یہ علاقہ جنگل کے قریب ہے اور بار بار عسکریت پسندوں کے دیکھے جانے کے بعد ، چار سے پانچ آ پریشن شروع کیے گئے ہیں۔ جہاں تک تفتیش کا تعلق ہے، ہمیں کچھ ٹھوس سراغ ملے ہیں اور جلد ہی گرفتاریاں کی جائیں گی۔ مجھے امید ہے کہ جلد کامیابی حاصل ہو جائے گی”۔
یوم جمہوریہ کی تقریبات اور بھارت جوڑ دیا ترا کے لیے حفاظتی اقدامات کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں آج ایک میٹنگ ہوئی جس میں اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مناسب اقدامات کیے ہیں اور پر امن یوم جمہوریہ کی تقریبات کو یقینی بنایاجائے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یاترا کے لیے جموں و کشمیر بھر میں حفاظتی انتظامات بھی کیے جارہے ہیں۔ ڈی جی پی نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر اور ملک کے دیگر حصوں میں سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے مرکزی کردار بین الاقوامی سطح پر بے نقاب ہو رہا ہے۔ ملوث افراد کے خلاف کارروائی کو مزید سخت کرنے اور انہیں دہشت گرد قرار دینے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ان افراد کی پروفائل عسکریت پسندی کے خلاف کام کرنے والی مختلف تنظیموں کو بھی بھیجی جا رہی ہے “۔