امت نیوز ڈیسک //
سرینگر:نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ اگر لال سنگھ جیسے لیڈران راہل گاندھی کی ‘بھارت جوڑو یاترا’ کے لئے مدعو کیا جارہا ہے اور وہ اس میں شامل ہوں گے تو یہ یاترا کے ساتھ کھلواڑ ہوگا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ کانگرس کو دیکھنا ہوگا کہ کہیں کچھ لوگ یاترا استعمال کرکے اپنے آپ کو وائٹ واش تو نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ عمر عبداللہ نے ان باتوں کا اظہار سرینگر میں صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں کیا۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ کشمیر کے لوگ کٹھوعہ ریپ معاملے میں ان لیڈران کے رول کو نہیں بھول پائے گئے، جنہوں نے اس دوران مجرموں کو معصوم قرار دیا تھا اور مظلوم کو گناہ گار ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی تھی۔
یار رہے کہ کھٹوعہ ضلع کے رسانا علاقے میں ایک چوتھی بچی کے ساتھ عصمت دری اور قتل کے دلدوز واقع میں سابق بی جے پی کے وزیر لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا نے مجرموں کی حمایت میں ترنگا ریلی نکالی تھی اور ان کے معصوم ہونے کے لئے کئی اجلاس بھی منعقد کیے تھے۔ تاہم لال سنگھ کو بعد میں وزارت سے برخواست کیا گیا تھا اور انہوں نے بی جے پی کو الوداع کرکے الگ سیاسی جماعت ‘ڈوگرہ سنگرش سوابیمان تشکیل دی تھی۔ وزارت سے بے دخلی کے بعد لا سنگھ بی جے پی کی سخت تنقید کرتے آرہے ہیں۔
لال سنگھ کی بھارت جوڑو یاترا میں شرکت کرنے سے قبل کانگرس کے ترجمان دیپیکا پشکر ناتھ نے پارٹی سے ہی استعفی دیا تھا۔ایک وکیل کی حیثیت سے دیپیکا نے عدالت میں مقتولہ بچی سے والدین کی طرف سے کیس لڑا تھا اور اس معاملے میں قانونی طور ان کی حمایت کی تھی۔ لال سنگھ کی یاترا میں شمولیت پر تنازعہ برپا ہونے کے بعد کانگرس نے آج سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ لال سنگھ کو مدعو نہیں کیا گیا اور اس پر پارٹی گفتگو کرے گی کہ کیا لال سنگھ کو یاترا میں بلایا جائے گا یا نہیں۔
سرکاری و روشنی اراضی کو خالی کرانے کے احکامات پر عمر عبداللہ نے کہا کہ روشنی زمین سے قبضہ ہٹانے پر جموں صوبے کے لوگ ہی زیادہ بے گھر ہو جائیں گے، البتہ اگر سرکار کو اسٹیٹ لینڈ خالی کرنا چاہ رہی ہے تو ان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کہیں لوگ اس سے متاثر نہیں ہو رہے ہیں۔
بتادیں کہ جموں و کشمیر لیفٹیننٹ گورنر انتظامیہ کی جانب سے جاری کیے گئے حکمنامہ میں سبھی اضلاع کے ڈی سی صاحبان سے کاہچرائی سمیت دیگر سرکاری اراضی پر 31 جنوری تک قبضہ ہٹائے کو کہا گیا ہے ۔ اس حکمنامے کے خلاف بی جے پی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں نے اس آدڑ کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔