آج جس مسئلہ نے خوفناک شکل اختیار کر لی ہے، وہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ کچھ سال پہلے اس کا چرچہ بہت محدود تھا مگر اب یہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ خطرے کی وارننگ ہے۔ یہ ہمیں جلد از جلد اپنے رویوں کو بدلنے کی ترغیب دے رہا ہے۔ اس کے نتائج بھیانک ہیں۔ اگر دنیا کےسارے ممالک خاص کر ترقی یافتہ ممالک نے اس ضمن میں ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھائے، تو تباہی ہم سب کا مقدر بن جائے گی! صنعتی انقلاب کےساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی نے سنگین شکل اختیار کر لی، ہر جگہ صنعتیں اور کارخانےنمودار ہونے لگے۔سرمایہ کی لالچ نے لوگوں کو ہوس کا اور زیادہ پجاری بنا دیا؛ بنا سوچے سمجھے قدرت کے کارخانے میں ڈاکوؤں کی طرح لوٹ مار شروع ہوئی۔ اس کا اثر ماحولیاتی آلودگی کی شکل میں آیا۔ گرمی میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہونے لگا۔ ماحولیاتی توازن میں دراڑ پیدا ہوگئی۔
قدرت کا نظام بہت باریک اور حساس ہے۔ چھوٹے جراثیم سے لے کر بڑے وحوش تک، ہر کسی کی انفرادی ضرورت ہے۔پیداواری صلاحیت رکھنے والے نباتات و جمادات سے لیکر خورد حیویہ کے قیام تک قدرت نے’’فوڈ چین‘‘ کے نام سےایک نظام بنا رکھا ہوا ہے۔ اس میں کوئی بھی خلل تباہی لاتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصل زندگی کا مرکز سمندر ہیں، ضیائی تالیف سب سے زیادہ پانی میں ہوتا ہے جو زندگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ صنعتی انقلاب اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے ذیلی انقلابات نے پہلے سمندر کو آلودہ کیا۔ اس کا سیدھا اثر زمین پر رہنے والی مخلوق پر پڑا۔جب زندگی کا مرکز ہی آلودہ ہو، تب ہم خودہی حالات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
جہاں کل تک جھلسا دینی والی دھوپ ہوا کرتی تھی، وہاں آج درجہ حرارت صفر سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ جو زمینیں کل تک سرسبز اور شاداب ہوا کرتی تھی، وہ آج بنجر بن گئی ہے۔ جو پانی کل تک آب حیات مانا جاتا تھا، وہ آج زہر ہے۔ اسی طرح جو ہوا خالص ہوا کرتی تھی اور روح کو سکون بخشتی تھی، آج وہ زہر آلود ہوچکی ہے۔ جنگلات سکڑتے جارہے ہیں اور ویرانیاں بڑھتی جارہی ہیں ۔ بیماریوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ وباء جیسی صورتیں چار سو ہیں۔گلیشر پگل رہے ہیں جس کی وجہ سے چھپے ہوئے جراثیم اب نمودار ہورہے ہیں جو بہت خطرناک قسم کی بیماریوں کے موجب ہیں‘ جن کے لئے ہم کسی بھی طریقے سے تیار نہیں ہے۔ بہت سارے دریا اب سوکھ چکے ہیں یا پھر سیلابوں کی زد میں ہیں۔ بارش یا تو تھمنے کا نام نہیں لیتی ہے یا پھر سالوں سال تک اپنا چہرہ نہیں دکھاتی ہے۔ غرض زندگی کے ہر شعبے پر موسمیاتی تبدیلی کا اثر نمایاں ہے۔ اس کے پنجے ہر گزرتے دن کے ساتھ اور گہرے ہوتے جارہے ہیں۔
وقت کی اشد ضرورت ہے کہ اس کا تدارک کیا جائے۔اس ضمن میں تھوڑی سی بھی دیر جان لیوا ہوسکتی ہے۔ سب کو اس میں اپنا رول نبھانا ہوگا۔ حکومت، ماہرین غرض تمام کو اس میں زیادہ پہل کرنی پڑی گی۔ ایک فنڈ قائم کیا جانا چاہئے جس کا واحد مقصد موسمیاتی تبدیلیوں کا صحیح اور پائیدار علاج ہو۔ ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ بلا وجہ ماحول کو خراب کرنے سے بھی اجتناب کیا جانا چاہیے۔ اسکولوں میں ماحولیات کے متعلق جانکاری فراہم کرنی چاہیے تاکہ معصوم اذہان پہلے سے ہے ماحول کے متعلق حساس رہیں، وہ ماحول کے تحفظ میں پیش پیش رہے، اپنے اندر ماحول کو بچانے کی قوت پیدا کرے۔ قدرت کی کسی بھی چیز کو بے کار نہ سمجھیں، ہر چیز کو قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھیں، اپنے آپ کو ماحول کے رکھوالے سمجھیں ۔ ایک بیدارذہن پیدا کریں اور آنے والے کل کی فکر کریں۔