کشمیر کے دوردراز پہاڑی ضلع کپواڑہ میں مراٹھا بادشاہ اور بے مثال جنگجوچھترپتی شیواجی مہاراج کے مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی۔ 7نومبر2023ء کے روزلیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اور مہاراشٹر کے ثقافتی امور کے وزیر سدھیر منگنٹی وار کے ساتھ چھترپتی شیواجی مہاراج کے مجسمے کی نقاب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو معاشرے کے غریب اور کمزور طبقات کی خدمت کرنی چاہیے جبکہ اس موقع پر مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ شیواجی ہر ہندوستانی کےلئے ایک تحریک تھے۔ ان کا مذید کہنا تھا کہ نوجوانوں کو چھترپتی شیواجی مہاراج کے نظریات اور نظریات پر عمل کرنا چاہئے، معاشرے کے غریب اور کمزور طبقات کی بے لوث خدمت کرنی چاہئے اور قوم کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ شیواجی کی آفاقی اور ابدی اقدار آج بھی متعلقہ ہیں اور وہ سماجی مساوات اور پرامن بقائے باہمی کی راہ پر گامزن رہنے والے جلیل القدر حکمران تھے۔
اس موقع پر جموں کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر شری منوج سنہا نے اس تاریخی پہل کے لیے ’امہی پونیکر‘ اور فوج کی41ویں راشٹریہ رائفلز کو مبارکباد دی۔انہوں نے کہا کہ عظیم شیواجی کا مجسمہ لوگوں اور فوج کے جوانوں کے لیے تحریک کا باعث بنے گا۔ سوراجیہ کے بانی شیواجی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے، ایل جی نے کہا کہ شیواجی ایک پیدائشی لیڈر تھے، جنہوں نے دشمن کے خلاف اپنی شاندار فتح کے ذریعے ہندوستان کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔انہوں نے کہا، ’’شیواجی اعلیٰ اخلاق، صحیح طرزِ عمل اور تمام مذاہب اور فرقوں کا احترام کرنے والے بھی تھے۔ ‘‘ان کا کہنا تھا کہ اپنی فوجی ذہانت اور اخلاقی قوت کو ظاہر کرتے ہوئے، شیواجی نے لاکھوں ہندوستانیوں کو متحرک کیا اور مراٹھا سلطنت کے لیے خودمختاری حاصل کی۔
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے اس موقع پر کہا کہ شیواجی ہر ہندوستانی کے لیے ایک تحریک تھے۔ان کا کہنا تھا کہ’’ مہاراشٹر میں قربانی اور بہادری کی ایک عظیم روایت قائم ہے۔ یہ واقعی قابل ستائش ہے کہ یہ مجسمہ کپواڑہ میں اسی سال نصب کیا جا رہا ہے جب شیواجی کی تاجپوشی کی 350ویں سالگرہ تھی‘‘ ۔ اس موقع پرمہاراشٹر کے ثقافتی امور کے وزیر، سدھیر منگنتیوار نے شیواجی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شیواجی کے مجسمے کی نقاب کشائی ان کی زندگی کا سب سے قابل فخر لمحہ تھا۔ اس موقع پر جی او سی وجر ڈویژن، میجر جنرل گریش کالیا نے معززین کو کپواڑہ کی خواتین کے ہاتھ سے تیار کردہ ترنگا پیش کیا۔واضح رہے کہ جموں و کشمیر کے سابق نائب وزیر اعلی، کویندر گپتا، ڈی آئی جی نارتھ کشمیر رینج وویک گپتا، ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) کپوارہ آیوشی سوڈان وغیرہ کے علاوہ اس موقع پر بانی’امہی پونیکر‘ شری ابھے راج شرولےنیز فوج، سول اور پولیس انتظامیہ کے سینئر افسران بھی اس قریب میں موجود تھے۔
اس سے قبل مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ایک ناتھ شنڈے ایک وفد کے ہمراہ دو روزہ دورے پر سرینگر پہنچے جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک ناتھ شنڈے مہاراشٹر میں اپنی حکومت کے قیام کے بعد سے جموں وکشمیر آتے رہے ہیں اور اسی برس جون کے مہینے میں انہوں نے جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے ملاقات کی تھی اور ان سے ’مہاراشٹر بھون‘ کی تعمیر کے لیے سرینگر میں زمین فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔یہ میٹنگ سرینگر میں ہوئی تھی جس کے دوران مسٹر شندے نے لیفٹیننٹ گورنر کو ایک خط سونپا جس میں کہا گیا کہ مہاراشٹر بھون ثقافتی تبادلے اور تعاون کو فروغ دے گا تاکہ سیاحتی سرگرمیوں کے ذریعے معیشت کو فروغ دیا جا سکے۔ انکا کہنا تھا کہ ’’مہارشٹر بھون کے قیام سے جموں و کشمیر کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے طلباء، کاروباری افراد اور سینئر حکام کے لیے ایک بڑے مرکز کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے اوراس سے کشمیر میں مہاراشٹر کے فن، ثقافت اور کھانے کی نمائش میں مدد ملے گی۔‘‘
واضح رہے کہ چھتر پتی شیواجی مہاراج مراٹھیوں کے ایک عظیم رہنما رہے ہیںجن کی جنگی حکمت عملیاںاور بعدازاں حکومت کا نظم و نسق چلانے کے کارنامے خاصے معروف ہیں۔ مہاراشٹر باسیوں کےلئے شیواجی ایک’’بھگوان‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں اور مراٹھا تاریخ و تمدن ان کے نام کے بغیر ادھوری تصور کی جاتی ہے۔ لیکن شیواجی مہاراج کا کشمیر سے کیا تعلق ہے اور یہاں کے ایک دور دراز پہاڑی ضلع میں ان کے مجسمے کی تنصیب کیا معنی رکھتی ہے اس پر مختلف لوگوں کی مختلف آراء ہیں ۔ خود مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کا کشمیریوں کے نام ایک پیغام جو یہاں کے روزناموں میں بھی شائع ہوا اس معاملے پر کچھ روشنی ڈال رہا ہے۔ اپنے پیغام میں ایک ناتھ شنڈے کا کہنا ہے کہ ’’مہاراشٹر اور کشمیر کے درمیان مضبوط رشتہ صدیوں سے قائم ہے۔ کشمیر ہمیشہ سے میرا پیارا تعلق رہا ہے، اور میں یہاں آکر مہاراشٹر جیسی بڑی ریاست کے تھکا دینے والے کام کاج سے کچھ فرصت کے لمحات نکالا کر سکون حاصل کرتا ہوں۔ اس پُرسکون سرزمین میں ایک دن بھی میری روح کو تروتازہ کرتا ہے، مجھے اپنی عظیم ریاست پر حکومت کرنے کی طاقت دیتا ہے۔آج، میں یہاں کشمیر میں ایک خاص اور اہم موقع پر ہوں۔ہم چھترپتی شیواجی مہاراج کے مجسمے کا افتتاح کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، ایک ایسی شخصیت جو مہاراشٹر کے لوگوں کے دلوں میں دیوتا کے طور پر قابل احترام ہیں۔ یہ عظیم کوشش ہندوستانی فوج کی 41ویں آر آر اور پونہ میں قائم این جی او ’ امی پونیکر‘کے درمیان تعاون و اشتراک کا نتیجہ ہے۔یہ غیر معمولی عمل لگ سکتا ہے، لیکن چھترپتی شیواجی مہاراج اور کشمیر کے درمیان گہرا تعلق موجود ہے۔مجھے وضاحت کرنے کی اجازت دیں۔ چھترپتی شیواجی مہاراج، جب مہاراشٹر میں ’سوراج‘ (خود حکمرانی) قائم کرنے کی قسم کھارہے تھے تو انہوں نے ایک شیو لنگ پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا تھا، جس میں شیو ازم اور تصوف کا مضبوط اثر واضح ہوتا ہے اور جو آج بھی کشمیر میں واضح طور پرموجود ہے۔ بھگوان شیو، جو مہادیو کے طور پر قابل احترام ہیں، اور کشمیر کے درمیان تعلقات ہمارے(ہندو) پرانوں میں اچھی طرح سے دستاویز ہیں۔ چھترپتی شیواجی مہاراج کی جنگی پکار،’’ہر ہر مہادیو‘‘ کا بھی کشمیر سے ایک اہم تعلق ہے۔شیو اور پاروتی کے بیٹے بھگوان گنیش کی ہر مہاراشٹری گھرانے میں پوجا کی جاتی ہے‘‘۔ ان کا مذید کہنا تھا کہ ’’ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ یہ روایت کشمیر میں بھی پروان چڑھتی ہے، لال چوک اور اس کے آس پاس رہنے والی مراٹھی برادری کی بدولت جو اپنے کشمیری بھائیوں کی حمایت سے اس روایت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔مجھے اس سال لال چوک میں گنیش اوتسو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، اور میں اس فخر کی توقع کرتا ہوں کہ آنے والی سلور جوبلی کی تقریب کشمیریوں اور مہاراشٹر کے لوگوں دونوں کے لیے خوشیاں لائے گی۔چھترپتی شیواجی مہاراج کے دادا، مالوجی راجے بھوسلے، صوفی بزرگ’’ شیخ محمد‘‘ کے ایک عقیدت مند پیروکار تھے۔ مہاراشٹر اور کشمیر کے درمیان مضبوط رشتہ صدیوں سے برقرار ہے، دونوں خطوں میں اولیاء کی ایک بھرپور روایت ہے جو کشمیر کے شیو مت اور تصوف سے متاثر تھے۔چھترپتی شیواجی مہاراج کا دورِ حکومت قابل ذکر اصولوں پر مشتمل تھا‘‘۔ان کا مذید کہنا ہے کہ ’’چھترپتی شیواجی مہاراج کی سوچ اور اپروچ ان کی فوج تک پھیلی ہوئی تھی، جس میں بہت سے مسلم جنگجو اہم کردارکی حیثیت سے شامل تھے۔ وہ عبادت گاہوں کا احترام کرتے تھے، اپنی مہموں کے دوران کبھی مساجد یا درگاہوں کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ اس کا مشن اورنگ زیب، عادل شاہ، یا نظام شاہ جیسے جابر حکمرانوں کو چیلنج کرنا تھا، نہ کہ کسی خاص عقیدے کو نشانہ بنانا۔ان کی ترقی پسند قیادت میں کشمیر کی روایات کی جھلک نظر آتی ہے، جس کی جڑیں شیو مت، بدھ مت اور تصوف سے جڑی ہوئی ہیں اورجن کا ان کی اقدار پر گہرا اثر پڑا‘‘۔ان کا مذید کہنا تھا کہ ’’مجھے یقین ہے کہ چھترپتی شیواجی مہاراج کا مجسمہ نہ صرف41ویںآر آر اور ہندوستانی فوج بلکہ کشمیر کے لچکدار اور ترقی پسند لوگوں کو بھی متاثر کرے گا۔‘‘
بتادیں کہ20 اکتوبر2023 ء کو مہاراشٹر کے گورنر رمیش بیس اور وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے راج بھون ممبئی سے چھترپتی شیواجی مہاراج کے گھڑ سوار مجسمے کو جھنڈی دکھا کر روانہ کیا تھا تاکہ شیواجی مہاراج کا مجسمہ نصب کرنے کے لیے جموں و کشمیر کے کپواڑہ میں راشٹریہ رائفلز41مراٹھا لائٹ انفنٹری رجمنٹ کو پیش کیا جائے ۔یہ مجسمہ ’آمہی پوینکر فاؤنڈیشن‘ اور ’چھترپتی شیواجی مہاراج اسمارک سمیتی‘ کی طرز پر بنایا گیا ہے۔
شیواجی مہاراج کے مجسموں کی کشمیر میں تنصیب کے ضمن میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایسے کچھ چھوٹے مجسمے پہلے بھی کپواڑہ کے لائین آف کنٹرل سے متصل کئی مقامات پر نصب کئے جاچکے ہیں ۔ جموں کے کچھ لیڈران نے ان مجسموں کی تنصیب پر یہ بھی کہا تھا کہ بہتر یہ ہوتا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کے فوجی کمانڈر زوراوار سنگھ کے مجسمے تعینات کئے جاتے کیونکہ انہوں نے قبائیلوں کے حملوں میں ان علاقوں کو بچایا تھا لیکن بعدازاں وہ نحیف آوازیں اٹھنا بند ہوگئیں ۔ کشمیر میں کئی سیاسی سماجی اور تمدنی نظریات سے وابستہ ماہرین کی بھی اس حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ کچھ لوگ مہاراشٹر حکومت کی جموں وکشمیر میں’ آمد درآمد‘ کو ’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ‘والی مثال مانتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر سے ہزاروں میل دور مہاراشٹر کے بجائے اگر یہ مداخلتیں اور سلسلے پنجاب، ہریانہ ،ہماچل پردیش بلکہ دہلی بھی ہوں تو انکی سمجھ آتی ہے لیکن مہاراشٹر حکومت اس سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے یہ عقل سے بالاتر ہے۔ ایک سیاسی و سماجی دانشور کا کہنا تھا کہ شیواجی ایک بڑے حکمران تھے جن کی بہادری اور عدل پرستی کے قصے خاصے معروف ہیں لیکن بہرحال ان کا دائرہ اثر ہندوستان کے ایک مخصوص علاقے اور طبقے میں زیادہ مضبوط و مربوط ہے۔ یہاں کشمیر میں اگر مسلمان بادشاہوں جن میں بڈشاہ قابل ذکر ہیں جن کی حکومت اور عدل پرستی ہندوستان کے بڑے علاقے تک پھیلی ہوئی تھی ‘کو صرف نظر کرکے صرف یہاں کے ہندو مہاراجوں پر ہی نظر دوڑائیں تو للتادیتاجیسے اعلیٰ ترین بادشاہ بھی ہیں جن کی سلطنت کافی وسیع و عریض اور طرز حکمرانی بے نظیر تھی۔ خود جموں کے لیڈران ’ڈوگرہ بادشاہوں‘ میں سے بھی ایسے کئی نام گنواتے ہیں جن کو وہ بے حد احترام کی نظر سے دیکھتے اور یاد کرتے ہیں۔ پھر ایسے حکمرانوں کو چھوڑ کر کیونکر شیواجی کے مجسمے ہی نصب کئے جارہے ہیںیہ ایک معمے سے کم نہیں۔اس کا جواب غالباً ہمیں جنوری 2022ء میں ’ٹرونکل‘ نامی نیوز پورٹل پر شائع ’رانیتا انڈک‘ نامی لکھاری کے مضمون سے مل جاتا ہے جو اس ضمن میں رقم طراز ہیں : ’’کشمیر کے بہتر ہوتے ہوئے حالات میں ایک نیا اضافہ مراٹھا رجمنٹ کی طرف سے چھترپتی شیواجی مہاراج کے دو مجسموں کی تنصیب ہے۔ ان دو مجسموں میں سے ایک ایل او سی کے قریب سطح سمندر سے 14800فٹ بلندی پر نصب کیا گیا ، جو مجسمہ رکھنے کے لیے اب تک کی بلند ترین جگہ بن گئی ہے۔ یہ مجسمہ پونہ کے ایک مجسمہ ساز اجنکیا لوہوگاوکر نے بنایا تھا۔جیسے ہی شیواجی کے دو مجسموں کے افتتاح کی خبر آئی، عوام الناس میں ملا جلا رد عمل دیکھنے میں آیا، کچھ بائیں بازو کے لبرل اور کچھ کشمیری ذیلی قوم پرستوں نے اس طرح کی تنصیب کے مقصد پر سوال اٹھائے، جو محسوس کرتے تھے کہ چھترپتی شیواجی کی بجائے، ایک جموں کے ڈوگرہ راجپوت حکمران گلاب سنگھ کے 18ویں صدی کے فوجی جرنیل زوراور سنگھ کہلوریا کا مجسمہ زیادہ مناسب ہوتا۔ لیکن کسی کو چھوٹے چھوٹے علاقائی تعصب سے اوپر اٹھ کر چھترپتی شیواجی کے مجسمے کی بے پناہ اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جو کہ ہندو فخر اور شان کا مظہر ہے جسےکشمیر میں نصب کیا جا رہا ہے‘‘۔
ایک مقامی سیاسی لکھاری کی مانیں تو مجسموں کی یہ سیاست دراصل مہاراشٹر حکومت کی مجبوری بن چکی ہے۔ ان کا کہناہے کہ غالباً مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ایک ناتھ شنڈے اپنی ریاست میں چل رہے ’مراٹھہ ریزرویشن معاملے‘ کو بھی’ کشمیر ٹچ ‘دے کر سلجھانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دراصل مہاراشٹر ریاست میں ’مراٹھہ ریزرویشن ‘ کا مسئلہ کافی زیادہ اُلجھ چکا ہے۔بظاہر خود مسٹر شنڈے کی حکومت اس ریزرویشن کے حق میں ہے لیکن مسئلہ قانونی اور عدالتی راہداریوں میں پھنس گیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بادی النظر میںجس بڑے پیمانے پر ریزرویشن دینے کا اعلان کیا گیا تھا وہ غیر قانونی ہے اور اس سے مہاراشٹر کی حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑے گا جس کے سیاسی مضمرات خود شنڈے حکومت کو جھیلنے پڑیں گے ۔اور ظاہر ہے اس مصیبت سے نکلنے کےلئے کشمیر جیسی حساس جگہ میں مراٹھیوں کے اعلیٰ ترین شخص شیواجی کی جے جے کار کیوں نہ کی جائے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مہاراشٹر ریاست میں عرصہ دراز سے ’مقامی مراٹھہ آبادی ‘ کو نوکریوں اور تعلیمی مراکز میں ریزرویشن دینے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ انڈیا ٹوڈے میں 2 نومبر2023 ء کو شائع ہونے والے مضمون کے مطابق مہاراشٹر میں مراٹھوں کے لیے تعلیم اور ملازمتوں میں ریزرویشن کے دیرینہ مطالبے کو ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے بھوک ہڑتال پر کوٹہ کارکن منوج جرنگے پاٹل کی وجہ سے تازہ توانائی ملی ہے۔ مظاہرے کے دوران تشدد بھڑک اٹھا اور کئی ایم ایل ایز کے گھروں کو آگ لگا دی گئی۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شندے نے دہرایا کہ ان کی حکومت مراٹھا کوٹہ کے لیے ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریاستی حکومت ان کے لیے ریزرویشن کے حق میں ہے تو مراٹھا کوٹہ کے راستے میں کیا آ رہا ہے؟ جریدہ آگے لکھتا ہے کہ’ قانونی چیلنجز اور دفعات کی جانچ پڑتال مراٹھوں کو کوٹہ کے فوائد دینے کے فوراً بعد شروع ہوئی۔مراٹھا ریزرویشن کو بمبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جس نے اس کی درستی کو برقرار رکھا۔ تاہم ہائی کورٹ نے ملازمتوں میں کوٹہ کو مجموعی طور پر16فیصد سے کم کر کے 13فیصد اور تعلیم میں 13فیصد کر دیا۔اس کے بعد مراٹھا ریزرویشن کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔مئی 2021ءمیں سپریم کورٹ کی ایک آئینی بنچ نے مراٹھوں کو ریزرویشن فراہم کرنے کے لیے 2018ءمیں مہاراشٹر حکومت کی طرف سے لائے گئے قانون کو ختم کر دیا۔سپریم کورٹ نے کوٹہ کی فراہمی کو خارج کر دیا کیونکہ یہ ریاست میں ریزرویشن کی 50فیصد حد کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ پانچ ججوں کی بنچ نے کہا،’2018ءکا قانون مہاراشٹر ریاستی قانون مساوات کے حق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ ہم 1992ءکے فیصلے کا دوبارہ جائزہ نہیں لیں گے جس میں ریزرویشن کو 50فیصد تک محدود کیا گیا تھا۔‘‘اکتوبر میں، سپریم کورٹ نے ریزرویشن کے معاملے پر مہاراشٹر حکومت کی کیوریٹیو عرضی درج کرنے پر اتفاق کیا۔لہٰذا، یہ ریزرویشن پر 50فیصد کی حد ہے جو مراٹھا ریزرویشن کے راستے میں آ رہی ہے۔ اب یہ اس پر منحصر ہے کہ سپریم کورٹ آخر کیا فیصلہ دیتی ہے۔
سیاسی مفکرین کا ماننا ہے کہ مہاراشٹر کی حکومت یہ بات سمجھتی ہے کہ سپریم کورٹ میں ریزرویشن قانون غالباً ٹک نہیں پائے گا اسی لئے اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کےلئے کشمیر سے’ شیواجی مہاراج بھگتی‘ کا مظاہرہ کیا جارہا ہے تاکہ ریزرویشن معاملے پر قدم پیچھے ہٹانے کے ممکنہ سیاسی جھٹکوں سے اپنی حکومت کو بچایا جاسکے ۔سیاسی مفکرین کہتے ہیں کہ ویسے بھی بی جے پی بحیثیت ایک جماعت’ ریزرویشن سیاست ‘کےخلاف ہے، اسلئے شنڈے حکومت جہاں سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلے کے آفٹر شاکس سے محفوظ رہنے کےلئے ’کشمیر ٹچ‘ دے رہی ہے وہیں پر ریزرویشن کا معاملہ گول کرکے یہ بی جے پی کے اصولوں کو بھی زندہ رکھنا چاہتی ہے۔معاملہ آگے بڑھتا ہے تو معلوم ہوجائے گا کہ کس کی رائے زیادہ باوزن ہے ۔