اس کانفرنس سے کم ازکم توقع یہ تھی کہ یہاں سے، غزہ کیلئے کوئی ٹھوس روڈ میپ ضرور اُبھر کر سامنے آئیگا مگر ستاون مسلم ملکوں کے سربراہان سر جوڑ کر بیٹھنے کے باوجود اسرائیل کو کوئی سخت پیغام دینے میں ناکام رہے۔ جب یہی کرنا تھا تو اس چوٹی کانفرنس کی ضرورت کیا تھی؟اس پر صرف ہونے والے کروڑوں ڈالر غزہ کے مظلوموں کی نذر کردیئے جاتے تو یہ کوئی کارخیر ہوتا!
اس بات کی تو خیر امید بھی نہیں کی جارہی تھی کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کے مشترکہ اجلاس میں غزہ میں جاری نہتے فلسطینی شہریوں کاقتل عام روکنے کی خاطراسرائیل کے خلاف کسی مشترکہ محاذ آرائی کا اعلان کیا جائے گاتاہم یہ توقع ضرور تھی کہ کچھ اور نہیں تو کم از کم وحشیانہ بمباری بند کروانے کے لئے سعودی دارالحکومت ریاض سے کوئی ٹھوس روڈ میپ ضرور ابھر کر سامنے آئے گا۔ اس اجلاس میں ستاون مسلم ممالک کے سربراہان نے حصہ لیا جن میں عرب لیگ کے بائیس ممالک کے سربراہان بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود یہ اجلاس بے نتیجہ رہا۔ سوائے اسرائیلی جارحیت کی مختلف انداز اور الفاظ میں مذمت کرنے کے اور سوائے اقوام متحدہ اور امریکہ سے تل ابیب پر دباؤ ڈال کر سیز فائر کرانے کی اپیل کرنے کے اس اجلاس نے کیا حاصل کیا؟ اس کام کے لئے اتنے بڑے چوٹی اجلاس کے انعقاد کی کیا ضرورت تھی؟ اس پر جو کروڑوں ڈالر خرچ کئے گئے بہتر ہوتاکہ ان سے غزہ کے بھوکے بچوں کے لئے دودھ اور زخمیوں کے علاج کے لئے مہنگی دوائیں خرید کر انہیں بھجوائی جاتیں۔ اسلامی سربراہان کا نشستندو گفتند و برخاستندکا یہ سلسلہ تو طویل عرصے سے چل رہا ہے لیکن کیا اس کا اسرائیل کی شہ زوری پر ذرا سا بھی اثر پڑا ہے؟پچھلے دس بارہ دنوں سے امریکہ اور فرانس جیسے ممالک اسرائیل کو غزہ میں شہریوں کی ہلاکتیں روکنے کی تلقین کررہے ہیں۔ کیا بنجامن نیتن یاہو نے ان کی اپیلوں پر کان دھرا ہے؟ اسرائیل پوری دنیا میں یہودیوں کا اکلوتا ملک ہے اور اس کی یہودی آبادی صرف 70۔75 لاکھ ہے۔ اس کے باوجودکیا آپ نے کبھی اسرائیل کو اقوام عالم سے کوئی اپیل کرتے دیکھا ہے؟یا اقوام متحدہ کی کسی وارننگ یا قرارداد کو خاطر میں لاتے دیکھاہے؟ اس کے برعکس دنیا میں مسلم ممالک کی تعداد ستاون ہے اور مسلمانوں کی مجموعی آبادی تقریباً دو ارب ہے، پھر بھی مسلمان ہمیشہ اپیل اور فریاد کرتے نظر آتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان کی فریادکو ئی سنتا بھی نہیں ہے۔
سات اکتوبر کے حملوں کے بعدامریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر مغربی ممالک کے سربراہان بھاگے بھاگے تل ابیب جاپہنچے اور اسرائیل کے ساتھ مکمل یکجہتی اور حمایت کا اعلان کردیا، اپنے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے اور ہلاکت خیز اسلحہ سے اسرائیل کو مزید لیس کردیا۔بائیڈن، سونک اور میکرون وغیر ہ نے یہ اعلان کردیا کہ وہ اسرائیلیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کیاریاض کے اجلاس سے یہ اعلان نہیں ہونا چاہئے تھا کہ پورا عالم اسلام غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے؟عالم اسلام کے سربراہوں نے ریاض کے اجلاس میں امریکہ اور مغربی ممالک سے یہ مطالبہ ضرور کیا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی روک دیں لیکن خود یہ اسلامی ممالک اسرائیل کو تیل کی فراہمی روکنے کی ہمت نہیں دکھاسکے۔اجلاس میں سیکورٹی کونسل سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ غزہ میں ہورہی نسل کشی رکوانے کیلئے فیصلہ کن کردار اداکرے جبکہ مسلم لیڈروں کو یہ بخوبی علم ہے کہ سیکورٹی کونسل میں ایسی کوئی مشترکہ قرارداد پیش بھی کی گئی تو امریکہ اسے دوبارہ ویٹو کردے گا یعنی اسلامی اجلاس میں سعی ٔلاحاصل میں وقت اور پیسے دونوں ضائع کئے گئے۔
اب تک صہیونی فوج گیارہ ہزار فلسطینیوں کو ہلاک کرچکی ہے جن میں پانچ ہزار معصوم بچے شامل ہیں۔ غزہ کی نصف آبادی کو ان کے گھروں سے اجاڑ دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق شمالی غزہ زمین پر جہنم کی تصویر پیش کررہا ہے۔ ایک اسرائیلی وزیر 1948ء کانکبہ دہرانے کا علان کررہاہے اور دوسرا غزہ کو ایٹم بم سے اڑادینے کی دھمکی دے رہا ہے۔ ایسے وقت میں اسلامی ممالک کے سربراہوں سے ایک مضبوط اور مربوط ردعمل کی امید تھی لیکن انہوں نے صرف غزہ باسیوں کو ہی نہیں سارے عالم اسلام کو بری طرح مایوس کیا۔
اجلاس میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے اسرئیل ڈیفنس فورسز کو’’دہشت گرد تنظیم‘‘قرار دینے اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکمرانوں پر بین الاقوامی عدالت میں جنگی جرائم کا مقدمہ دائر کرنے، شام نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی رشتے منقطع کرنے اور لبنان اور الجزائر نے اسرائیل کو تیل کی سپلائی روک دینے کی تجاویز رکھیں لیکن یہ تمام تجاویز مسترد کردی گئیں۔ گویا ہمیشہ کی طرح اسرائیل کے خلاف صرف زبانی جمع خرچ کیاگیا اور عملی اقدام سے گریز کیا گیا۔
اس غیر معمولی مشترکہ اجلاس کی میز بانی اور صدارت جواں سال سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے کی۔انہوں نے عرب دنیا کے تمام بڑے لیڈروں اور ایران کے صدر ابراہیم رئیسی، ترکی کے صدرطیب اردگان اور قطر کے شاہ شیخ تمیم بن حماد الثانی کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ایک بڑی سفارتی کامیابی ضرور حاصل کی لیکن اس غیر معمولی عالمی اسلامی اتحاد کے مظاہرے کے ذریعہ کوئی مقصد حل نہیں کرسکے۔ یہی تو وقت تھا اسرائیل اور امریکہ کو ایک سخت پیغام دینے کا۔
متحدہ عرب امارات، بحرین، مراقش اورسوڈان جیسے ممالک کو یہ اعلان کرنے کی ضرورت تھی کہ اگرصہیونی فوجوں نے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام فوراً بند نہیں کیا تو وہ ابراہیمی معاہدہ پھاڑ کر پھینک دیں گے اور اسرائیل سے سفارتی، سیاسی اور اقتصادی رشتے توڑ لیں گے۔ انہیں اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑنے میں اگر قباحت تھی تو صرف تعلقات توڑنے کی دھمکی دے کر تو دیکھتے۔ترکی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کئی بارتوڑ کر دوبارہ جوڑ چکا ہے۔
اکیس سال قبل مشرق وسطیٰ میں امن کے پائیدار قیام کیلئے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ مرحوم نے یہ عمدہ تجویز رکھی تھی کہ تمام عرب ممالک ایک ساتھ اسرائیل کے ساتھ سفارتی رشتے قائم کرنے کو تیار ہیں اگر اسرائیل 1967ء میں ناجائز طور پر قبضہ کئے گئے تمام فلسطینی علاقے خالی کردے اور ان پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو قبول کرلے۔ ان کی اس تجویز کی2002ء میں عرب لیگ کے بیروت اجلاس میں اتفاق رائے سے توثیق کردی گئی اور اسے Arab Peace Initiative کا نام دیا گیا۔
لیکن نیتن یاہو اسی وقت سے اس پیش رفت کو ناکام بنانے کی اپنے مذموم مہم میں لگ گئے۔ انہوں نے یہ موقف اپنایا کہ فلسطینیوں کو ان کا جائز حق دیئے بغیر بھی عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے رشتے قائم ہوسکتے ہیں۔ ٹرمپ نے ان کے اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے’’ ابراہیمی معاہدوں‘‘ کا شوشہ چھوڑا۔ ان معاہدوں پر دستخط کرکے یو اے ای اور دیگر عرب ممالک نے نیتن یاہو کے موقف کی صداقت پر مہر لگادی۔ سعودی عرب کے ساتھ بھی اسرائیل کا معاہدہ بس ہونے والا ہی تھا کہ سات اکتوبرکو اسرائیل پر حملہ ہوگیا۔ جو بائیڈن کی مانیں تو حماس کے ان حملوں کا مقصد ہی مجوزہ معاہدہ کو سبو تاژ کرنا تھا۔ اسلامی ممالک کے سربراہان کوریاض کانفرنس کے ذریعہ نیتن یاہو کو کم از کم یہ واضح پیغام بھیجنے کی ضرورت تھی کہ مسئلہ فلسطین کو حل کئے بغیر اور فلسطینیوں کو ان کا حق دیئے بغیر اسرائیل عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی بات سوچ بھی نہیں سکتا۔