باپ، بھائی، بیٹے اور خاوند ہمارے سائباں ہیں، ان حصاروں سے نہ نکلیں تاکہ معاشرے میں موجود انسان نما بھیڑیوں سے محفوظ رہیں۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔
مذہب اسلام کی یہ امتیازی شان ہے کہ دومرد وعورت جب نکاح کے مقدس بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو محصن قرار پاتے ہیں۔ گویا کہ ہر قسم کے غیر اخلاقی حملوں سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔ دو خاندانوں میں روابط استوار ہوتے ہیں اور ایک نیا خاندان وجود میں آتا ہے۔ میاں بیوی اگر اپنے بارے میں اللّٰه تعالیٰ کے پیارے فرمان، ترجمہ۔(وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔) کا مفہوم سمجھتے ہیں تو گھر میں خوشگوار ماحول پیدا ہوتا ہے۔ ماحول کی خوشگواری مزید بڑھ جاتی ہے۔
اگر گھر میں والدین یا دادا، دادی جیسے بزرگوں کا سایہء رحمت بھی موجود ہو۔ بشرطیکہ سب افراد فرمان نبوی(جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کا احترام نہیں کرتا ،وہ ہم میں سے نہیں۔) پر عمل کرنے والے ہوں۔ اس صورت حال میں بہن، بھائی اور دوسرے رحم کے رشتے بھی گھر میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد گھر کے آنگن میں پیارے پیارے پھول کھلتے ہیں یعنی بچے پیدا ہوتے ہیں تو گھر کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں۔ اس گھر میں ہر فرد کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ کوئی کسی سے کمتر نہیں ہوتا۔ حقوق کا راگ الاپنے کی بجائے فرائض کی ادائیگی کی فکر ہوتی ہے۔ باہم ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے خاندان مل کر ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں لاتے ہیں جیسے اسلامی معاشرہ کہا جاسکتا ہے۔ ایسے ہی مثالی معاشرے کا نمونہ نبی رحمت ﷺ کے زیر تربیت صحابہ کرام کی جماعت نے پیش کیا تھا۔
دور حاضر میں مسلم معاشرہ میں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ اسکی بڑی وجہ اسلامی تعلیمات سے بیگانگی ہے، گھروں میں عدم برداشت کا رویہ کار فرما ہے۔ ادھر لڑکے کی شادی ھوئی ادھر سارے سسرالی رشتوں نے توقعات وابستہ کر لیں کہ بہو سب کی خدمت کرے گی، سب کو خوش رکھے گی اس کی طرف سے کسی کمی کوتاہی کی گنجائش نہ معافی- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بھی عیلحدگی کا مطالبہ کرتی ہے جو عموماًہمارے معاشرتی نظام میں پورا نہیں ہوتا۔ اس کھینچاتانی میں میاں بیوی میں محبت مودت کا رشتہ کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ لڑائی جھگڑے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ حتٰی کہ نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے جس کے بارے میں پیارے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ اللہ کے نزدیک حلال امور میں سب سے ناپسندیدہ طلاق ہے، کیا اسلام کو بحثیت دین تسلیم کرنے والے اپنے نبی ﷺ کے اسوہ حسنہ سے ناواقف ہیں؟ جو ایک وقت میں اپنی نو ازواج کو خوش و خرم رکھے ہوئے تھے، ان کی معمولی خوبیوں کو سراہتے، ہنسی مزاق میں ان کے ساتھ شامل ہوتے کیونکہ یہ حکم ربی ان کے پیش نظر رہتا ” ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ ، یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگواور معاملات میں حسن سلوک رکھو گو کہ تم انھیں ناپسند کرو لیکن ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا مانو اور اللہ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے“ (سورہ النساء)۔ امہات المومنین نے بھی اپنے آپ کو اس حدیث کے مصداق ثابت کیا۔
میں تمہیں مردوں کا بہترین خزانہ بتاؤں ؟ وہ نیک عورت ہے جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے جب شوہر اس کو کوئی حکم دے تو اس کا کہنا مانے۔ اگر شوہر کہیں باہر سفر میں چلا جائے تو اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔ (ابوداٶد -نسائی )
اب ہمیں اپنے خاندانی نظام کو بچانے کے لیے اور کون سا نمونہ عمل چاہیے؟ لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ہم نے اس بہترین مثال کو چھوڑ کر دورِ حاضر کے آزاد میڈیا کی رہبری قبول کرلی ہے۔ جو ہمارے خاندانی نظام کی شکست و ریخت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جس میں ٹیلی ویژن سرِ فہرست ہے۔ جو اپنے تمام تر چینلز کے ساتھ چوبیس گھنٹے قوم کی خدمت کے لیے مستعد رہتا ہے۔ اس پر پیش کیے جانے والے ڈراموں میں جو ماحول نظر آتا ہے وہ کسی طرح ہمارے گھروں کے ماحول سے میل نہیں کھاتا۔ وسیع بنگلے، بڑی بڑی گاڑیاں، لڑکے لڑکیوں کے درمیان دوستی کا کھلا ماحول، مذہبی پابندیوں سے آزاد نت نئے ملبوسات، انواع و اقسام کے کھانے اور مغربی طرزِ زندگی مرکزِ نگاہ ہوتا ہے۔ گھریلو خواتین اس ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں اور اکثر ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں جس کے خاندان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس مغرب زدہ میڈیا سے گاہے بگاہے آزادی نسواں کی پکار سنائی دیتی ہے مثلاً خواتین کا عالمی دن مناتے ہوئے ہمارا پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا دونوں ہی حقوقِ نسواں کے محافظ نظر آتے ہیں۔
ہمارا روشن خیال طبقہ جو اسلامی تعلیمات سے بیگانہ ہے، اسی میڈیا کے ذریعے عورتوں کو ان کے حقوق دلوانے کی بھرپور سعی کرتا ہے۔ بعض دانشور تو یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ عورت کو آزادی حاصل کرنے کے لیے نکاح کے بندھن سے آزاد ہو جانا چاہیے تاکہ مرد کی محکوم نہ رہے۔ میرے نزدیک خاندانی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے آزاد میڈیا کو مسلمان کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ مرد اور عورت دونوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انکے مقرر کردہ حقوق و فرائض سے آگاہ کرے خصوصا عورت کو بتائے کہ وہ اسلامی معاشرہ میں ایک ایسے مقام پر فائز ہے جہاں سے وہ معاشرہ کنٹرول کرتی ہے، اسکو سنوارتی ہے۔ وہ ایک بیوی بہن بیٹی ہو کر خدمت کو اپنا شعار بناتی ہے، وہ ایک چھوٹی سی جنت کے خواب دیکھ کر اس کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے جس کی وہ مالک ہے اور مرد اس کا محافظ ہے۔
میری بہنو! خدارا اپنے تمام حقوق کو جانو جو میرے رب نے عطا کیے ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں رہتے ہوئے انہی حقوق کا مطالبہ کریں اسی میں ہمارے خاندانی نظام کی بقا مضمر ہے۔ باپ، بھائی، بیٹے اور خاوند ہمارے سائباں ہیں، ان حصاروں سے نہ نکلیں تاکہ معاشرے میں موجود انسان نما بھیڑیوں سے محفوظ رہیں۔
ابھی تک آدمی صید زبوں شہر یاری ہے
قیامت ہے کہ انسان نوع انسان کا شکاری ہے