قریش مکہ جزیرۃ العرب کے تمام قبائل میں خود کو سب سے زیادہ ذی مرتبہ اور عالی وقار سمجھتے تھے۔ اﷲ کی وحدانیت اور روز قیامت پر ایمان لانا نیز اسلام کے مساویانہ نظام عدل کو قبول کرنا، ان کے متکبّرانہ سوچ کے خلاف تھا۔ اس لیے وہ اسلام سے سخت بے زار اور اسلام کے خاتمے کے در پہ تھے۔ جب تک مسلمان مکہ میں رہے وہ انہیں ہر طرح کی ایذائیں دیتے رہے لیکن جب مسلمان مدینے چلے گئے تو انہیں اپنی دیرینہ خواہش چکنا چُور ہوتی نظر آنے لگی۔ مدینے میں مسلمانوں کے جمتے قدم اور اسلام کا تیزی سے فروغ ان کے لیے سوہان روح سے کم نہ تھا۔
انہوں نے مدینہ منورہ کے یہودیوں اور اسلام قبول نہ کرنے والے اوس و خزرج کے لوگوں کو دھمکی دی کہ مکے کے مسلمانوں کو اپنے شہر سے نکالو ورنہ ہم تم پر حملہ آور ہوکر مردوں کو قتل اور عورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے لیکن ان کی یہ دھمکی رائیگاں گئی جس پر انہوں نے مدینہ اور اس کے اطراف و اکناف کے مشرک قبائل سے ساز باز کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وجہ سے حضور اکرم ﷺ نے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کی تدابیر اختیار کیں۔ ابُوجہل نے مشہور کردیا کہ قریش کے اس قافلے کو جو شام سے آرہا ہے اور جس کا سرمایہ پچاس ہزار دینار ہے، مسلمان لوٹنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا قافلے کی حفاطت کے لیے جلد آگے بڑھنا چاہیے۔ اس کی تدبیر زود اثر ثابت ہوئی اور ایک ہزار کا عظیم لشکر جس میں تین سو گھوڑے اور سات سو اونٹ تھے، روانہ ہُوا۔ ابُوجہل مکے سے چار پانچ منزل پر تھا کہ اسے اطلاع مل گئی کہ وہ قافلہ بہ خیریت مکہ پہنچ گیا ہے۔ اہل لشکر نے ابُوجہل سے کہا کہ اب ہم کو واپس چلنا چاہیے لیکن ابُوجہل نے اتفاق نہ کیا اور کہا کہ یہ تو اچھا ہُوا لیکن بہتر یہ کہ ہم مدینے کے قرب و جوار تک پہنچیں اور مسلمان ہماری کثرت اور شان و شوکت سے مرعوب ہوجائیں گے۔
ابُوجہل کا ارادہ جاننے کے بعد نبی کریم ﷺ نے سرداران مہاجرین اور انصار کی شوریٰ طلب کی جس میں سب سے پہلے حضرت ابُوبکر صدیق ؓ پھر حضرت عمرؓ نے نہایت جاں نثارانہ تقاریر کیں۔ لیکن آپؐ انصار کا عندیہ لینا چاہتے تھے۔
حضرت سعد بن عبادہؓ نے انصار کی طرف سے عرض کیا: ’’آپؐ جہاں تشریف لے جائیں گے، ہم آپؐ کے ساتھ ہیں، آپؐ جس سے قطع تعلق کرنا چاہیں کیجیے، جس سے قائم رکھنا چاہیں قائم رکھیں، ہم دونوں کے لیے حاضر ہیں، اگر آپ ﷺ برکِ غم دان (یمن کا ایک مقام) تک بھی جائیں گے تو ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں، اگر آپ ﷺ ہمیں سمندر میں کود پڑنے کا حکم دیں گے تو ہم کود پڑیں گے۔‘‘ اس کے بعد انصار ہی کی طرف سے حضرت مقداد بن عمرؓ نے کہا: ’’ہم موسیٰؑ کی امت کی طرح نہیں ہیں، جس نے موسیٰؑ سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب جاکر لڑو۔ ہم یہاں بیٹھے ہیں۔
بل کہ ہم آپؐ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے آپ ﷺ کے ساتھ رہیں گے۔‘‘ یہ تقریریں سن کر آپؐ کا چہرۂ مبارک وفور مسرت سے چمک اٹھا۔ آپ ﷺ تین سو تیرہ مسلمانوں کے ہم راہ روانہ ہوئے۔ اسلامی لشکر میں صرف ستّر اونٹ، تین گھوڑے اور آٹھ تلواریں تھیں۔ اس درمیان میں قریش کا لشکر جس میں ہزار پیدل اور سو سوار تھے۔
عقبہ بن ربیعہ کی قیادت میں مدینہ کے قریب پہنچ کر مناسب جگہوں پر قبضہ کرچکا تھا۔ آنحضرت ﷺ کو چاہ بدر کے قریب اس کی اطلاع ملی۔ آپ ﷺ وہیں ٹھہر گئے اور صف آرائی شروع کی۔ آپ ﷺ نے اصول جنگ کے مطابق فوجیں مرتب کیں۔ مہاجرین کا علم حضرت معصبؓ کو عنایت فرمایا۔ خزرج کا علم بردار حضرت خباب بن منذر ؓ اور اوس کے حضرت سعد بن معاذ ؓمقرر ہوئے۔
اب دو صفیں آمنے سامنے مقابل تھیں۔ حق و باطل، نور و ظلمت، کفر و اسلام، یہ عجیب منظر تھا اتنی بڑی دنیا میں اسلام کی بقاء چند نفوس پر منحصر تھی۔ اس وقت نبی کریم ﷺ پر گریہ طاری تھا۔ دونوں ہاتھ پھیلا کر فرماتے تھے: ’’یااﷲ! تُونے مجھ سے وعدہ کیا ہے آج پورا کر دے۔‘‘ محویت اور بے خودی کے عالم میں چادر کندھے سے گر پڑتی تھی اور آپ ﷺ کو خبر تک نہ ہوتی تھی۔ آپ ﷺ کبھی سجدے میں گر پڑتے تھے اور فرماتے تھے: ’’یااﷲ! اگر یہ چند نفوس آج مٹ گئے تو قیامت تک کوئی تیرا نام لیوا نہ ہوگا۔‘‘ قریش کی فوجیں اب بالکل قریب آگئیں۔
تاہم آپ ﷺ نے صحابہؓ کو پیش قدمی سے روکا اور فرمایا کہ جب دشمن پاس آجائیں تو تیر سے روکو۔ یہ بڑے امتحان و آزمائش کا موقع تھا۔ جب دونوں فوجیں مقابل ہوئیں تو مسلمانوں نے دیکھا کہ خود ان کے بزرگ اور ان کے قلب و جگر کے ٹکڑے تلواروں کے سامنے ہیں لیکن اسلام کی محبت نے تمام رشتوں کو بُھلا دیا تھا۔ چناں چہ میدان جنگ میں حضرت ابُوبکرؓ کی تلوار اپنے لخت جگر عبدالرحمٰن کے مقابلے میں بے نیام ہوئی۔ حضرت عمرؓ کی تلوار اپنے ماموں کے خون سے رنگین ہوئی۔ حضرت حذیفہؓ کو اپنے والد عقبہ کے مقابلے میں آنا پڑا۔
پہلے فرداً فرداً مقابلہ ہوا اور دونوں فوجوں میں سے ایک ایک آدمی میدان میں آیا۔ مقتول عمرو حضرمی کے بھائی کو حضرت عمرؓ کے غلام نے قتل کیا۔ قریش کے سپہ سالار عتبہ کا کام حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے تمام کیا اس کے بھائی شیبہ کو حضرت علیؓ کی تلوار نے ختم کیا۔ عبیرہ بن سعید کو حضرت زبیرؓ نے مارا اس کے بعد عام جنگ شروع ہوگئی۔
دو انصاری بچے معاذ اور معوذ بن عفراءؓ ابُوجہل کی تاک میں تھے اس پر نظر پڑتے ہی انہوں نے اس کو زخموں سے چور کرکے لاچار کردیا۔ ابُوجہل کے قتل سے قریش میں بَد دلی پھیل گئی مگر ابھی ایک اور سردار امیہ بن خلف باقی تھا۔ اتفاق سے حضرت بلالؓ نے جو مکہ میں اس کے مشق ستم رہ چکے تھے اسے دیکھ لیا۔ انہوں نے انصار کو خبر کردی وہ ہر طرف سے ٹوٹ پڑے اور اسے جہنم رسید کردیا۔ امیہ کے قتل ہوتے ہی کفار نے میدان چھوڑ دیا۔
لڑائی کے خاتمے پر رسول اکرم ﷺ نے حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ سے ابُوجہل کی موت کا پوچھا۔ جس پر حضرت عبداﷲؓ نے مُردوں کو معائنہ کرتے ہوئے ابوجہل کو فرش خاک پر پڑا دیکھا، وہ زخموں سے چور تھا۔ آپ نے تلوار نکالی اور اس کے سینے پر رکھ دی۔ گردن کاٹنے کے بعد حضرت عبداﷲ ؓ نے آنحضرت کو اس کی موت کی خبر دی۔ آپ ﷺ نے مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا: ’’اﷲ کا شُکر ہے جس نے اسے رسوا کیا۔ یہ امت کا فرعون تھا۔‘‘ قریش کے بہت سے نام ور سرداروں کے ساتھ ستّر آدمی ہلاک ہوئے۔ مسلمانوں کے کل چودہ آدمی شہید ہوئے۔
کفار قریش کے ستر آدمی گرفتار ہوئے۔ اس کے بعد رسول اکرم ﷺ نے صحابہؓ سے اسیران جنگ کے بارے میں مشورہ کیا اور حضرت ابوبکرؓ کی رائے کو پسند فرماتے ہوئے فدیہ لے کر سب کو رہا کردیا جو لوگ ناداری کی وجہ سے فدیہ ادا نہ کرسکتے تھے اور لکھنا جانتے تھے ان کے متعلق حکم ہوا کہ دس دس لڑکوں کو لکھنا سکھا دیں تو وہ رہا کر دیے جائیں گے۔
کفار مکہ میدان جنگ سے ایسے بھاگے تھے کہ انہوں نے اپنی فوج کے مردوں کا بھی کچھ انتظام نہ کیا۔ حضور اکرم ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ جہاں کہیں کسی انسان کی لاش بلا تدفین دیکھتے دفن کرنے کا حکم دیتے۔ بدر میں آنحضرت ﷺ نے ایسا ہی کیا۔ بعد ازاں حضور اکرم ﷺ کفار کے ایک ایک سردار کا نام لے کر یوں مخاطب ہوئے: ’’کیا تم نے اس وعدہ کو جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا (یعنی تمہاری شکست کا وعدہ) سچا پایا؟ تحقیق میں نے اس وعدے کو سچا پایا ہے جو میرے رب نے مجھ سے کیا تھا۔‘‘ جنگ کا نتیجہ انتہائی حیرت انگیز تھا۔ اغیار مسلمانوں کی فتح ماننے کے لیے بالکل تیار نہ تھے لیکن جب مسلمانوں کا فاتح لشکر قیدیوں اور کثیر مال غنیمت کے ہم راہ مدینہ میں داخل ہوا تو حاسد مشرکوں، منافقوں اور یہودیوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔
فتح بدر کی شہرت نے جزیرۃ العرب کے طول و عرض میں اسلام کی صداقت کا سکہ بٹھا دیا۔ بہت سے کفار قریش نے فرشتوں کے نزول اور آسمانی امداد کا پہنچنا دیکھا تھا اب ان کے دل میں اسلام کی صداقت سے متعلق کوئی شک باقی نہ رہا۔ چناں چہ ان میں سے متعدد مدینہ میں دربار نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔
غزوۂ بدر کو دیگر غزوات پر جو امتیاز حاصل ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خود خدا نے اس غزوہ کو ’’یوم الفرقان‘‘ کہا۔ غزوۂ بدر کی یہ فضیلت بھی بڑی اہم ہے کہ تمام صحابہؓ میں بدری صحابہؓ افضل ترین ہیں۔ یوم الفرقان کے بعد شہدائے محترم کی رفعت کا اظہار خود اﷲ نے بہت معظم و مکرم الفاظ میں یوں فرمایا ہے: ’’اور جو اﷲ کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ سمجھو بل کہ وہ زندہ ہیں۔ اپنے رب سے رزق پاتے ہیں۔ شاد ہیں اس پر جو کچھ اﷲ نے انہیں دیا ہے۔‘‘
بے سر و سامانی کے باوجود جنگ بدر میں جو فتح مسلمانوں کو حاصل ہوئی وہ کسی معجزے سے کم نہ تھی اس جنگ نے جزیرہ عرب پر مسلمانوں کی دھاک بٹھا دی تھی۔ اس فتح کے نتیجے میں یہ طے ہوگیا تھا کہ اسلام کو زندہ رہنا ہے اور کفر کو شکست سے دوچار ہونا پڑے گا۔