تحریر: صاحبزادہ محمد امانت رسول
سوشل میڈیا نے ہمارے لیے اہل حل و عقد اور اہل علم و دانش سے براہ راست رابطہ و استفادہ کرنا آسان کر دیا ہے۔ وہ لوگ جنہیں ہم اخبار، ٹی وی پہ پڑھتے دیکھتے تھے یا کبھی کبھی کسی سیمینار، کانفرنس اور پروگرام میں اُن سے ملتے تھے۔ اب وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے پاس اور ہماری پہنچ میں رہتے ہیں۔
ہم اُن سے براہ ِراست بات کر سکتے، اُن کی پوسٹ پہ ردِّعمل اور تبصرہ کرسکتے ہیں۔ اُن سے اختلاف و اتفاق کر سکتے ہیں۔ اِس کے فوائد کثیر ہیں لیکن اِس کے نقصانات بھی بہت ہیں۔ لیکن آج کی تحریر میں صرف ایک نقصان کا ذکر کروں گا۔
یہ منفی پہلو ہر منفی پہلو پہ غالب اور کئی مثبت پہلووں کو چاٹ جانے والا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے۔
جس طرح اہل علم و دانش فقہی، قانونی اور مسلکی مسائل میں ایک خاص نقطہ نظر رکھتے ہیں، اِسی طرح وہ خاص سیاسی نظریات بھی رکھتے ہیں۔ اخبارات کے اکثر کالمز سیاسی مسائل، سیاسی جماعتوں اور سیاسی حالات پہ ہوتے ہیں۔ لوگ زیادہ تر اِسی طرح کی تحریروں کو پڑھتے اور فوراً جواب دیتے ہیں۔ اگر آپ کوئی علمی یا سماجی مسائل سے متعلق بات کریں گے تو اُس کا رسپانس بہت ہی کم آتا ہے لیکن سیاسی پوسٹ پر ردِّعمل فوراً آجاتا ہے، (اس سے ہماری ترجیحات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔) پھر چونکہ اہل علم و فن اپنے مخصوص سیاسی نظریات رکھتے ہیں تو ممکن ہے کبھی وہ کسی سیاسی پارٹی کے حق میں اور کبھی کسی سیاسی پارٹی کے خلاف ہوں، ممکن ہے خاص حالات میں وہ کسی سیاسی پارٹی کے موقف کو درست خیال کرتے ہوئے اُس کے موقف کے حق میں لکھیں اور اُس پارٹی کے خلاف لکھیں جسے وہ اس خاص موقف پہ صحیح نہ خیال کر تے ہوں۔ وہ کسی سیاسی قائد کی سیاسی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوں۔ وہ اس اختلاف کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ اُن کا یہ اختلاف ذاتی عناد و بغض کی بنیاد پہ نہیں ہوتا اور نہ کسی ذاتی مفاد کی بنیاد پہ ہوتا ہے بلکہ یہ اختلاف خالصتاً علم، تحقیق اور نتیجہ فکر کی بنیاد پہ ہوتا ہے۔ اب چو نکہ معاشرے میں اختلاف کو برداشت کرنے کا کلچر نہیں ہے۔ پولرائزیشن اتنی ہو چکی ہے کہ اِس بنیاد پہ انہیں دوسری جماعت کا حامی ’پٹھو‘، ’ایجنٹ‘ اور نہ جانے کیا کیا کہہ دیا جا تا ہے۔ اب یہ آسان راستہ ہے کہ آپ فوراً اُس پہ دوسری جماعت سے رشوت لینے یا لفافہ لینے کا الزام لگا دیں۔ سیاسی اختلاف کی بنیاد پہ نفرت پالنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پہ انہیں مخالف گروہ یا لابی میں سمجھنے والا انہیں مکمل طور پر رد کر دیتا ہے۔ میں نے سوشل میڈیا پہ لوگوں کوبہت سے اہل علم کے خلاف غلیظ اور گندی زبان استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں اُن کی بد قسمتی اور بد بختی پہ افسوس کرتاہوں کہ یہ گالی دینے والا شخص اِس صاحب علم سے صرف مروّجہ سیاست کی وجہ سے استفادہ علم کرنے سے محروم رہ گیا ہے۔
اگر آپ کوئی علمی یا سماجی مسائل سے متعلق بات کریں گے تو اُس کا رسپانس بہت ہی کم آتا ہے لیکن سیاسی پوسٹ پر ردِّعمل فوراً آجاتا ہے، اس سے ہماری ترجیحات کا بھی اندازہ ہوتا ہے
میں اس کی مثال یوں دیا کرتا ہوں کہ گزشتہ صدی میں ہمارے ہاں مختلف فرقے وجود میں آئے۔ بریلوی، دیو بندی(اگر چہ میں انہیں فرقے نہیں خیال کرتا) یا اِن کے علاوہ دیگر مکاتب فکر ہیں۔ اِن میں اکابر اور جید علمائے کرام بھی موجود ہیں۔ اِن جید علمائے کرام کی ایک طویل فہرست ہے۔ علماء و طلباء صرف اس تعصب کے باعث ان اہل علم سے اکتساب علم کرنے سے محروم رہے کہ اِن کا تعلق دوسرے مسلک سے تھا۔ ایک مسلک میں اگر علم الحدیث کا ماہر استاذ ہے تو دوسرے مسلک میں علم الفقہ کا ماہر استاذ ہے۔ کسی میں علم النحو کا بہترین استاذ ہے اور کسی میں علم الصرف کا، علٰی ھذا القیاس۔
نتیجہ یہ ہوا کہ دوریاں بڑھتی گئیں۔ جس کے نتائج ہم سب نے بھگتے اور آج تک بھگتتے چلے آرہے ہیں۔ اختلاف کے باوجود، اگر باہمی تعلق و افادہ ختم نہ کیا جاتا تو بر صغیر میں اسلام کی بہترین خدمت کی جاسکتی تھی۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ہر مسلک کی بڑی بڑی ایمپائرز وجود میں آچکی ہیں ایسے حا لات میں تفریقات کا خاتمہ ناممکن ہو جاتا ہے۔
ایسی ہی صورت حال سوشل میڈیا پہ نظر آتی ہے۔ ایک صاحب علم سوشل میڈیا پہ لکھ رہے ہیں۔ ان کا ایک علمی پس منظر ہے۔ وہ عرصہ دراز سے تحقیق و تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے سماج و سیاسیات پہ کام کیا ہے۔ اُن کی دلچسپی کے موضوعات سال ہا سال سے یہی ہیں۔ سوشل میڈیا تو بعد کی پیداوار ہے، وہ چار یا پانچ دہائیوں سے لکھ رہے ہیں۔ اُن کے نظریات سے اختلاف کے ساتھ ساتھ اُن کے علمی کام سے استفاد بھی کرنا چا ہیئے۔ سوشل میڈیا کے صارفین میں سے اکثر نئے نئے سیاست اور سوشل میڈیا سے وابستہ ہوئے ہیں۔ انہیں مکالمہ و کلام اور اختلافِ آداب کی تربیت اور تعلیم نہیں ہوتی اور نہ انہیں اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ ایسے یکلخت رد کرنے اور کلی طور پر تردید کر نے سے وہ اپنا نقصان کرتے ہیں۔ صاحب علم سے اختلاف کی ایک وجہ ہے تو اتفاق کی ننانوے وجوہات بھی ہوتی ہیں۔ سیاست کے بہت سے معاملات و مسائل ہیں جن میں ہمیں راہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
کسی بھی فرد کی مجموعی شخصیت کو محض اس کے سیاسی نقطہ نظر سے نہیں پرکھنا چاہیے۔ اس کی زندگی کے اور بھی علمی و سماجی پہلو ہوتے ہیں۔ اس کی مثال تاریخ کے مضمون سے سمجھی جاسکتی ہے، جب آپ تاریخ کو صرف سیاست تک محدود کریں گے تو آپ کے رویے متوازن نہیں بن پائیں گے۔ سوچ اور رویہ تب متوازن ہوتا ہے جب ثقافت، تہذیب، اقوام، رسوم و رواج، تعلقات کے سماجی، معاشرتی اور اخلاقی پہلو بھی غوروفکر میں شامل کرتے ہیں۔ اِسی طرح سوشل میڈیا پر متوازن رویہ اختیار کریں گے تو تبھی آپ سوشل میڈیا سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔
موجودہ صورتِ حال میں یہ بڑا نقصان دکھائی دیتا ہے کہ اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا شاید ہم اتنے محرومِ علم نہ ہوتے۔ سوشل میڈیا ایک گدڑی ہے جس میں لعل (موتی) چُھپے ہوئے ہیں۔
سیاسی اختلاف کی بنیاد پہ توہین و تضحیک کا رویہ اختیار کرنے، اُن سے دوری کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے اہل علم سے ہمیشہ سیکھنے اور تعلیم کا تعلق رکھیں۔ اس سے مجموعی طور پر فائدہ ہو گا۔ کم از کم یہ رویہ پروان چڑھ سکتا ہے کہ ہم اختلاف رکھتے ہیں لیکن آپ سے سیکھتے بھی رہیں گے۔ آپ سے اختلاف کے باوجود تعلق بھی قائم رہے گا۔
یہ ہماری تاریخ ہے کہ ماضی کے مردود آج کے مقبول ہیں، ماضی کے مذموم آج کے محمود ہیں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُن میں علم و حکمت پہلے روز سے موجود تھی لیکن اُن کے ہم عصر نے چند مسائل میں اختلاف کو اُن سے اتفاق پہ غالب کر دیا۔ اختلافات کو ہوا دی اور اُن کا علم و فن اُسی اختلاف میں چُھپ کر رہ گیا۔ جب آنے والی صدیوں میں اختلاف و فتوی کی گرد دور ہوئی تو لوگوں کو اُن کے علمی مقام و مرتبہ کا اندازہ ہوا۔ ممکن ہے آج ہم بھی کسی شخصیت کے ساتھ چند سیاسی مسائل و شخصیات پہ اختلاف کی وجہ سے اسی رویے کے مرتکب ہو رہے ہوں۔ اگر ہم اس نقصان کو فائدے اور اس منفی رویے کو مثبت رویے میں بدل سکیں تو سوشل میڈیا کو اپنے حق میں مفید بنا سکتے ہیں۔