سرینگر: سرینگر کے حیدر پورہ میں گذشتہ برس متنازع تصادم میں مارے گئے چار افراد میں سے ایک عامر ماگرے کے والد نے اپنے بیٹے کی لاش کو نکالنے پر جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔
اس معاملے کو سینیئر ایڈوکیٹ آنند گروور نے جسٹس سی ٹی روی کمار اور سدھانشو دھولی کے بنچ کے سامنے لیا۔ بنچ نے معاملہ کی شنوائی 27 جون کرنے کی ہدایت دی۔ وہیں آج سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرتے ہوئے عرضی گزار نے دعوی کیا کہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کا حکم آئین ہند کے دفعہ 21 اور 25 کی سراسر خلاف ورزی ہے جو مذہبی پیروکاروں کے قریبی رشتہ داروں کے ذریعہ متوفی کی تدفین کے حق کو برقرار اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ "اگر یہ دلیل مان بھی لی جائے کہ درخواست گزار کا بیٹا ایک تصدیق شدہ عسکریت پسند تھا، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ آئین کے دفعہ 21 اور دفعہ 25 کے تحت اپنے مذہبی طریقوں کے مطابق ایک باوقار تدفین اور آخری رسومات کا حقدار ہے۔”
درخواست گزار نے مدعا علیہ کے اس استدلال کی مزید مخالفت کی کہ اگر درخواست گزار کے بیٹے کی لاش کو نکالنے کی اجازت دی جاتی ہے تو اس سے منفی پیغام جائے گا اور اسی طرح کی درخواستوں کا سیلاب آئے گا۔ واضح رہے کہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بنچ نے 3 جون کو ہائی کورٹ کے سنگل جج کے 27 مئی کے فیصلے کی کارروائی پر روک لگا دی تھی جس میں عامر ماگرے کی لاش کو نکالنے کی ہدایت دی گئی تھی۔سنگل جج نے کہا تھا کہ جینے کے حق جیسا کہ آئین ہند کے دفعہ 21 کی ضمانت دی گئی ہے، اس میں انسانی وقار اور شائستگی کے ساتھ جینے کا حق بھی شامل ہے اور اس میں مرنے والے شخص کی لاش کے ساتھ احترام کے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔ سنگل جج نے جواب دہندگان کو ہدایت کی تھی کہ وہ درخواست گزار کی موجودگی میں وڈر پائین قبرستان سے عامر کی لاش/ باقیات کو نکالنے کے انتظامات کریں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ "اگر لاش قابل ترسیل حالت میں نہیں ہے یا اس سے صحت عامہ اور حفظان صحت کے لیے خطرہ ہونے کا خدشہ ہے، تو درخواست گزار اور اس کے قریبی رشتہ داروں کو ان کی روایت اور مذہبی عقیدے کے مطابق وڈر پائین قبرستان میں ہی آخری رسومات ادا کرنے کی اجازت ہوگی۔”
عدالت کا مزید کہنا تھا کہ "اگر لاش کی حالات بہت خراب ہو تو حکومت درخواست گزار کو اپنے بیٹے کی لاش رکھنے کے حق سے محروم ہونے کے لیے پانچ لاکھ روپے کا معاوضہ ادا کرے۔” اس فیصلے کے خلاف جموں و کشمیر انتظامیہ نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ میں اپیل کی تھی جس کے بعد ڈویژن بنج نے اس فیصلے پر روک لگا دی تھی۔جموں و کشمیر کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کے توسط سے دائر اعتراض میں کہا گیا ہے کہ معاملے میں لاش کی واپسی کا مطالبہ کسی عام شہری کا مطالبہ نہیں ہے جو سیکیورٹی فورسز کی کارروائی سے مارا گیا ہے بلکہ اس عسکریت پسند کا مطالبہ ہے جو تصادم آرائی کے دوران مارا گیا ہے۔
اس کے مزید کہا گیا ہے کہ "اگر کسی وجہ سے کسی عسکریت پسند کی لاش کی واپسی پر غور کیا جاتا ہے تو اس سے معاشرے میں ایک غلط پیغام جائے گا اور اس سے امن و امان اور سیکورٹی خدشات کے بہت بڑے نتائج برآمد ہوں گے۔ اس طرح شروع میں ہی عدالت کے سامنے سکیورٹی کے وسیع تر خدشات کے پیش نظر فوری طور پر رٹ پٹیشن کو خارج کر دیا جائے۔”
پولیس نے عدالت میں اپنے اعتراض میں کہا تھا کہ ” عسکریت پسندوں کی تدفین کے دوران پایا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں سمیت مفاد پرست بہت سے لوگ جنازے کے جلوسوں میں شامل ہونے کا انتظام کرتے ہیں اور وہاں عسکریت پسندی کی تعریف کرتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کو عسکریت پسندوں کی صفوں میں شامل ہونے اور عسکریت پسندی کے عمل کو جائز قرار دینے پر اکسایا جاتا ہے۔”