سرینگر:کُل جماعتی حریت کانفرنس نے ایک انٹریو کے دوران لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کی جانب سے دیے گئے اس بیان پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیا جس میں موصوف نے واضح الفاظ میں اس بات کی تردید کی ہے کہ حریت چیئرمین میر واعظ عمر فاروق اگست 2019 سے گھر میں نظر بند نہیں ہیں بلکہ ان کے گھر کے باہر فورسز کی گاڑیوں اور اہلکاروں کو موصوف کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔
حریت کانفرنس نے واضح کیا کہ یہ ایک صریح جھوٹ اور ناقابل یقین بیان ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میرواعظ کو گزشتہ تین برسوں سے مسلسل خانہ نظر بند رکھا گیا ہے۔ حالانکہ جموں و کشمیر کے تمام مذہبی علماء سمیت دیگر تمام طبقات کی طرف سے حکام سے بار بار کی اپیلوں اور التجا کے باوجود موصوف کو اپنے گھر سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے اور دنیا بھر کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹیں اس بات کی گواہ ہیں۔
حریت کانفرنس نے کہا کہ اگر اب حکام میر واعظ کو رہا کرنا چاہتے ہیں تو یہ ایک خوش آئند قدم ہے تاہم اپنی فضیحت چھپانے کے لیے اس طرح کے بیانات دینا حد درجہ شرارت آمیز اور افسوسناک ہے کیونکہ اس طرح کے بیانات کا مقصد رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور قیادت کے تئیں عوام میں بداعتمادی پیدا کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ میرواعظ نے نہ تو آج اور نہ ہی ماضی میں کبھی کسی سے سکیورٹی مانگی ہے۔مزید پڑھیں:
حریت نے کہا کہ ہمارا روز اول سے یہی موقف ہے کہ جموں و کشمیر کے تنازع کو یہاں کے عوام کے امنگوں کے مطابق حل کیا جائے اور تنازعہ میں شامل دیگر دو فریقوں یعنی ہندوستان اور پاکستان کو قابل قبول ہو اور اس کے لیے مذاکرات اور بات چیت ہی مناسب اور موزوں راستہ ہے۔
حریت نے بیان میں کہا کہ اگر حکام نے میر واعظ کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو انہیں آئندہ جمعتہ المبارک 26 اگست 2022 کو مرکزی جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دینے کی اجازت دی جائے اور عوام کو موصوف کی بات سننے کے لئے وہاں جمع ہونے سے نہ روکیں۔واضح رہے کہ منوج سنہا نے بی بی سی سے بات چیت کے دوران حریت کانفرنس کے چیئرمن میر واعظ عمر فاروق کے نظر بند یا نظر بند ہونے سے صاف طور پر انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میر واعظ عمر فاروق کے گھر کے آس پاس موجود سکیورٹی اہلکار صرف ان کی حفاظت کے لیے تعینات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی سے قبل میر واعظ پر پی ایس اے کے تحت نظر بند نہیں کیا گیا۔ میر واعظ نہ تو گرفتار ہیں اور نہ ہی زیر حراست ہیں۔ انہیں فیصلہ کرنا چاہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔