امت نیوز ڈیسک //
کشمیری پنڈت ملازمین نے جموں و کشمیر انتظامیہ کے اس حکم کے خلاف سنٹرل ایڈ منسٹریٹو ٹربیونل سے رجوع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے پیش پیکج کے تحت کام کر رہے ملازمین کو ٹرانسفر نہیں کیا جاسکتا۔
ملازمین کی طرف سے سی اے ٹی کی سری نگر بینچ سے رجوع کرنے کا یہ اقدام جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گور نر منوج سنہا کے اعلان کے چند دن بعد آیا ہے، جس میں ایل جی نے کہا تھا کہ احتجاجی ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی جائیں گی، اس بیان پر جموں و کشمیر کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے تنقید بھی کی تھی۔ بتادیں کہ کشمیری پنڈت ملازمین ملی ٹینسٹوں کے ذریعہ ٹارگٹ کلنگ کے پیش نظر وادی سے اپنی منتقلی کا مطالبہ کرنے کے لیے گزشتہ سات ماہ سے زیادہ عرصے سے ہڑتال پر ہیں۔ احتجاجی ملازمین نے اس وقت تک عبوری ریلیف کا مطالبہ کیا ہے جب تک کہ حکومت انہیں کام کا محفوظ ماحول فراہم نہیں کرتی اور ان کی زیر التوار تنخواہیں جاری نہیں کر دیتی۔
بو پندر بھٹ اور یوگیش پنڈتا کی طرف سے دائر درخواست کو 30 دسمبر کو ٹریبونل کے دوبارہ کام شروع کرنے کے بعد سماعت کے لیے درج کیاجائے گا۔ انہوں نے جموں و کشمیر کشمیری مائیگر نٹس (اسپیشل ڈرائیو ) ریکروٹمنٹرولز ، 2009 کے قاعدہ 4 کے ذیلی قاعد 40 کو چیلنج کیا ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ "اگر کوئی ملازم کسی بھی وجہ سے دوبارہ وادی سے ہجرت کرتا ہے، تو وہ بغیر کسی وجہ یا نوٹس جاری کئے ملازمت سے محروم کر دیا جائے گا”۔ یادر ہے کہ رواں برس 12 مئی کو وسطی کشمیر کے بڈگام ضلع کے چاڈورہ قصبے میں تحصیل دفتر کے اندر جنگجووں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے راہول بھٹ کی ہلاکت کے خلاف تقریباً 3000 کشمیری پنڈت ملازمین احتجاج پر
بیٹھے ہیں۔ ایل جی سنہا کے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ریزرو کیٹیگری (ڈوگرا ) ملازمین کو جموں منتقل نہیں کیا جا سکتا اور وہ (کے پی کے ملازمین ) گھر بیٹھے تنخواہیں نہیں لیں گے ، جس کے بعد سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید رد عمل
سامنے آیا۔
جموں و کشمیر کی تمام بڑی پارٹیاں بشمول بی جے پی کشمیری پنڈت اور ڈوگرہ ملازمین کی حمایت میں کھل کر سامنے آئیں ہیں اور ٹارگٹ کلنگ اور ٹرانسفر پالیسی کے پیش نظر کشمیر سے ” منتقلی ” کے ان کے مطالبات کی حمایت کر رہی ہیں۔
وزیر اعظم کے دفتر میں مرکزی وزیر مملکت جتیندر سنگھ نے ہفتے کے روز کہا تھا، ” میری ذاتی رائے ہے کہ انسانی جان سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اگر ایک جان کو بھی خطرہ ہو تو اس جان کو بچانا ہی بہتر ہے، چاہے درجنوں دفتر بند ہو جائے “۔