امت نیوز ڈیسک //
شاٹھ پلہ کرناہ کے ایک کنبہ پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب اُن کا بیٹا ہریانہ کی ایک جیل میں بیمار ہونے کے بعد دم توڑ گیا۔ اس کی موت کی خبر جب علاقے میں پھیلی تو پورے علاقے میں صف ماتم بچھ گئی۔ سجاد احمد فائر اینڈ ایمر جینسی محکمہ میں کام کر رہا تھا اور اسے ایک کیس کے سلسلے میں ہریانہ کی ایک جیل میں بند رکھا گیا تھا جہاں بدھ کے روز اس کی موت ہو گئی، یہ خبر جیسے ہی ان کے گھر والوں تک پہنچی تو انہوں نے ہریانہ جاکر جسد خاکی کو موصول کیا۔ لواحقین کے مطابق کر نال جیل مصطفی آباد میں وہ گزشتہ ایک سال سے قید تھا۔
سجاد کے بھانجے نوید ربانی نے بتایا کہ 24 دسمبر کو اسے جیل انتظامیہ کی طرف سے یہ کال موصول ہوئی کہ اسجاد کی صحت خراب ہو چکی ہے اور اس کو علاج کے لئے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔
نوید کے مطابق، یہ اطلاع ملتے ہی وہ ہریانہ پہنچا جہاں اس کی حالت خراب تھی۔نوید نے کہا کہ پہلے اس کو کلپنا چاولہ ہسپتال پہنچایا گیا اور وہاں سے اسے علاج کے لئے پی جی آئی ایس ایس منتقل کیا گیا جہاں اس نے بدھ کو دن کے ایک بجے دم توڑ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہسپتال اور پولیس انتظامیہ نے اس کا پوسٹ مار تم کیا اور نعش کو ہمارے سپرد کیا۔سجاد کی نماز جنازہ جمعرات کو دن کے تین بجے لو نٹھا پبلک پارک میں ادا کی گئی جہاں سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ لواحقین نے اس دوران سجاد کی موت کی اعلی سطح تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب کوئی قیادی جیل میں داخل ہوتا ہے تو اس کی طبی جانچ کی جاتی ہے لیکن انہیں معلوم ہی نہیں ہوا کہ وہ اتنازیادہ علیل تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس کی تحقیقات ہو اور اس بات کا پتہ چل سکے کہ آخر کار موت کی وجہ کیا ہے۔ ادھر ہریانہ جیل کے ایک افسر سندیپ لوہن نے بتایا کہ سجاد کا علاج جیل میں بھی کیا جاتا تھا لیکن گزشتہ روز جب اس کی حالت خراب ہو گئی تو اس کو علاج و معالجہ کے لئے پہلے کلپنا چاولہ ہسپتال پہنچایا گیا اور جب اس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی تو اس کو وہاں سے پی جی آئی منتقل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ لواحقین کو اس کی صحت کے حوالے سے خبر دار کیا گیا اور پھر سر کاری لوازمات پورا کر کے اس کی میت کو ان کے حوالے کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جیل انتظامیہ نے اس کے علاج میں کسی بھی قسم کی کوئی لا پرواہی نہیں برتی ہے۔نوید نے بتایا کہ پچھلے سال سجاد کو ایک کیس کے سلسلے میں سیلو سوپور سے دوران ڈیوٹی گر فتار کیا گیا اور بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ وہ ہریانہ کے جیل کرنال میں قید ہے۔معلوم رہے کہ اس سے قبل عبد لخالق کا چھوٹا بیٹا جو پیشے سے استاد تھا5 برس قبل بیت الخلاء میں گرنے کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا۔ الطاف احمد کا ایس آراد کیس پچھلے پانچ برسوں سے سیول سیکر ٹریٹ میں دھول چاٹ رہا ہے۔ عبدالخالق اب سجاد کے چار بچوں اور اس کی بیوہ کا واحد کمانے والا رہ گیا ہے۔