یکم جنوری کو راجوری کے ڈانگری نامی گاؤں میں شام قریباً ساتھ بجے نامعلوم مسلح افراد نے عام شہریوں پر فائرنگ کرکے چھہ افراد کو ہلاک کردیا۔تفصیلات کے مطابق مسلح افراد نےتین گھروں میں یکے بعد دیگرے داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دس افراد زخمی ہوئے۔زخمیوں کو گورنمنٹ میڈیکل کالج راجوری پہنچایا گیا جہاںڈاکٹروں نے تین افراد کومردہ قرار دیا۔ جبکہ ایک اور زخمی شخص جموں ائر لفٹ کرانے کے دوران دم توڑ گیا۔ ہلاک ہونے والوں کی شناخت 45سالہ ستیش کمار،23سالہ دیپک کمار، 57سالہ پریتم لال اور32سالہ شیشو پال کے طور پر ہوئی ہے۔ واقعہ کے اگلی صبح قریب 9بجے متاثرہ کنبے کے صحن میں ایک دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں مزیدچھ افراد بری طرح زخمی ہوئےجن میں دو کمسن بچے بعد میںدم توڑ گئے۔ مارے گئے دونوں بچوں کی شناخت 16 سالہ سمکشا شرما اور 4سالہ ویہان کمار شرما کے طور پر ہوئی ہے ۔مقامی لوگوں کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیاہے کہ مسلح افرادنے اتوار کو ہی صحن میں ایک آئی ای ڈی نصب کیا تھا ،ممکنہ طور پر جس کا ٹارگٹ جائے موقع پر جانے والے فورسز اہلکار تھے۔ گاؤں کے سرپنچ دیپک کمار نے اس حوالے سے راجوری میں میڈیا نمائندوں کو بتایا کہ” سیکورٹی اداروں کی طرف سےیہ ایک سنگین حفاظتی چوک ہوئی ہے۔ اقلیتی برادری کے لوگ خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتےہیں۔ انتظامیہ کو سخت اقدامات کرنے چاہیے۔“
ڈانگری میں ہوئیں ہلاکتوں کے خلاف مقامی لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرے کیے۔ سوموار کی شام ایل جی منوج سنہانےعلاقے کا دورہ کیاجس دوران انہوںنے کہا کہ اس واقعے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کے اہلخانہ کو انصاف ملے گا۔ایل جی منوج سنہا نے اہلخانہ کو یقین دہانی کی کہ سکیورٹی فورسز اس معاملے کی باریک بینی سے چھان بین کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائی گی۔ منوج سنہا نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ موت کا کوئی معاوضہ نہیں ہوتا ہے۔واضح رہےاس سے قبل جموں و کشمیر ایل جی انتطامیہ نے ہلاک ہونے والوں کو فی کس 10 لاکھ روپیے اور سرکاری نوکری جبکہ زخمیوں کو ایک ایک لاکھ روپیے معاوضہ دینے کا اعلان کیا۔ادھر منگل کی صبح ہلاک ہونے والے 6 افراد کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں جس میں پولیس اور سول انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔
جموں و کشمیر کی سبھی سیاسی جماعتوں نے ڈانگری واقعہ کی پُر زور مذمت کی ہے ۔نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے میڈیا نمائندوںکو بتایا کہ جس طرح وطن میں نفرت پھیلائی جا رہی ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا:”بہت دکھ کی بات ہے کہ ملی ٹینسی ابھی بھی اس ریاست میں چل رہی ہے بے گناہوں کو مارا جا رہا ہے چاہے وہ کسی بھی مذہب سے ہوں یہ بیماری بڑھ رہی ہے ۔پورے وطن میں جس طرح سے نفرت پھیلائی جا رہی ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے۔”ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کو چاہئے کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانے کے لئے ایک راستہ تلاش کریں۔پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے راجوری واقعے کو ایک دلدوز واقعہ قرار دیتے ہوئے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔انہوں نے میڈیا نمائندوںکے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں جس کو بھی مارا جاتا ہے نقصان جموں و کشمیر کا ہی ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا: "جس کو بھی مارا جاتا ہے خواہ وہ ہندو ہو مسلمان ہو سکھ ہو،نقصان جموں وکشمیر کا ہی ہوتا ہے۔”موصوفہ نے کہا کہ ہم گذشتہ تیس برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ادھر بھی بندوق ہے اور اُدھر بھی بندوق ہے۔انہوں نے کہا: "ایک جماعت ہندو مسلم کا بیانیہ چلا رہی ہے ،اس قسم کے واقعات سے ملک میں نفرت پھیلانے کا موقع ملتا ہے۔”ان کا کہنا تھا کہ جموں وکشمیر ایک ایسا خطہ ہے جہاں تمام مذہبوں کے لوگ صدیوں سے مل جل کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ”جموں کے راجوری ضلع میں ٹارگٹ حملے کی مزید تفصیلات سامنے آنے پر بڑا دکھ ہوا۔ میں اس حملے کی مذمت کرتا ہوں اور ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ اس حملے میں زخمی ہونے والے جلد اور مکمل صحت یاب ہوں گے۔” ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کے چیئرمین غلام نبی آزاد نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ”میں ڈانگری، راجوری میں ہوئے حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں جس میں 3 شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ بزدلی کا کام ہے۔” انہوں نے متاثرین کے لواحقین سے تعزیت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی۔ جموںو کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ” ایک اور قتل، اس مرتبہ راجوری میں، میں اس بزدلانہ حملے کی مذمت کرتا ہوں اور اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کے اہلخانہ سے میری تعزیت، اس حملے کو انجام دینے والے جہنم میں سڑیں گے۔”جموں و کشمیر اپنی پارٹی صدر سید الطاف بخاری نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ”میں راجوری میں پیش آئے بزدلانہ دہشت گردی کے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ان گھناؤنے حملوں کے پیچھے ملوث افراد کا حساب لیا جائے گا۔ میرے خیالات اور دعائیں غم کی اس گھڑی میں سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔” بھاجپا جموں وکشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینا نے ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ راجوری میں عام شہریوں کے قتل میں ملوث ملی ٹینٹوں کو بہت جلد انجام تک پہنچایا جائے گا۔انہوں نے بتایا کہ ملی ٹنٹوں کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور سود سمیت ہم اس کا بدلہ لیں گے ۔اُن کے مطابق ہلاکتوں کے خلاف جموں اور کشمیر دونوں صوبوں میں لوگوں نے اس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے ۔رویندر رینا کے مطابق کیا ہندو ، کیا مسلم کیا سکھ، کیا جموں کیا کشمیر ہم سب کو مل کر ملٹنسی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی خاطر متحدہ ہونا پڑے گا۔ حریت کانفرنس (ع) کی جانب سے جاری بیان میں مہلوکین کے لواحقین اور اہلیان راجوری کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ حریت متاثرین کے دکھ درد کو اچھی طرح سمجھتی ہے اور موجودہ غم و ماتم میں ان کے ساتھ شریک اور زخمیوں کی فوری شفایابی کیلئے دعا گو ہے۔بیان میں راجوری کے دلخراش سانحہ کو حد درجہ افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ قیمتی انسانی جانوں کا زیاں ہر لحاظ سے ناقابل تلافی ہے اور جموں وکشمیر کے حدود میں گزشتہ تین دہائیوں سے بلا امتیاز بے گناہ انسانوں کا قتل جو ایک نہ دوسرے بہانے لگاتارہو رہا ہے وہ ہر لحاظ سے تکلیف دہ اور لمحہ فکریہ ہے۔جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی ان ہلاکتوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
ادھر قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی ایک خصوصی ٹیم نےراجوری کے ڈانگری گاؤںکا دورہ کرکے جائے وقوعہ کا جائزہ لیا ۔دریں اثنا اے این آئی نیوز ایجنسی نے سرکاری ذرائع کا حوالہ دے کر بتایاہے کہ مرکزی وزارات داخلہ نے ضلع راجوری میں مشتبہ عسکریت پسندوں کی جانب سے حالیہ حملے کے بعد سنٹرل ریزریو پولیس فورس( سی آر پی ایف )کی 18 اضافی کمپنیاں تعینات کرنے کی ہدایت دی ہے۔تقریباً1800اہلکاروں پر مشتمل سی آر پی ایف کے اہلکار پونچھ اور راجوری اضلاع میں تعیناتی کیے جائیں گے۔ اطلاعات کے مطابق سی آر پی ایف کی آٹھ کمپنیاں کشمیر سے منتقل کرکے وہاں تعینات تعینات کی جائیں گی جبکہ 10 سی آر پی ایف کمپنیاں دہلی سے بھیجی جا رہی ہیں۔ یہ اقدام جموں خطے میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بارے میں انٹیلی جنس ان پٹ کے درمیان وزارت داخلہ کے جاری کردہ ایک حالیہ حکم کے بعد کیا گیا ہے۔
ادھر راجوری کے کئی دیہات میںفورسز کی جانب سے حملہ آوروں کی تلاش کےلیے سرچ آپریشنز انجام دئے جا رہے ہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس میںبتایا گیا ہے کہ بال کرشنا نامی شخص جو کہ ولیج ڈیفنس کمیٹی کا ممبرہے ‘کی جوابی فائرنگ میں مسلح حملہ آور بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔ بھاجپا لیڈر رویندر رینہ اور ویبودھ گپتا نے بتایا ہےکہ پولیس نے ساٹھ فیصد وی ڈی سی ممبران سے ہتھیار واپس لئے ہیں۔وہیں ڈی جی پی دلباغ سنگھ کے سامنے بھی مقامی لوگوں نے وی ڈی سی ممبران کا یہ مسئلہ اٹھایا،جس کے بعد دلباغ سنگھ نے اعلان کیا کہ گاؤں کی دفاعی کمیٹیوں کو اب بحال کرکےدوبارہ مسلح کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ "اگر کچھ بندوقیں واپس لے لی گئی ہیں، تو وہ واپس کر دی جائیں گی۔ جہاں کہیں زیادہ بندوقوں کی ضرورت ہوگی، وہ فراہم کی جائیں گی۔