شاہد لطیف
کانگریس پارٹی کے قائد راہول گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ قریب12 ریاستوں سے گزرنے کے بعد 20 جنوری کو جموں و کشمیر میں داخل ہونے والی ہے۔ اس ضمن میں کانگریس لیڈر رجنی پاٹل نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پیدل یاترا20جنوری کو جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع پہنچے گی اور30جنوری کو گرمائی دارالحکومت سرینگر میں اختتام پذیر ہوگی۔راجیہ سبھا ایم پی اور پارٹی انچارج جے اینڈکے رجنی پاٹل کا کہنا ہے کہ کانگریس یاترا کو کامیاب بنانے پر توجہ مرکوز کر رہی ہے کیونکہ یہ آزاد ہندوستان میں بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کا سب سے بڑا پروگرام ہے۔انہوں نے مزید کہا ہےکہ کانگریس نے اپنا دل، دماغ اور روح اس سفر میں ڈال دئے ہیں ۔محترمہ پاٹل، جموں وکشمیر کانگریس کے صدر وقار رسول وانی، اے آئی سی سی کے جوائنٹ سکریٹری منوج یادو، کشمیری لیڈر جی اے میر، کشمیر میں بھارت جوڑو یاترا کےرابطہ کار اور پارٹی کے سینئر لیڈر طارق حامد کرہ کے ساتھ، یاترا کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے لکھن پور گئیں تھیں۔اس موقع پر نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرتے ہوئے محترمہ پاٹل کا کہنا تھا کہ بھارت جوڑو یاترا کا آغاز کانگریس نے پورے ملک کو اکٹھا کرنے اور اسے مضبوط کرنے کے لیے کیا تھا۔یہ یاترا ہندوستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کے طور پر کھڑی ہے اور یہ آزادی کے بعد سب سے بڑا اجتماعی انعقاد کا پروگرام ہے۔ ہر کوئی اس کا حصہ بننے کے لیے پُرجوش ہے۔انہوں نے کہا کہ یاترا کا مقصد ملک میں تقسیم کا باعث بننے والے مسائل کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے لوگوں کو میدان میں لانا ہے۔پاٹل نے کہا کہ بی جے پی کا بھارت جوڑو یاترا کو نشانہ بنانا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ یہ ایک بڑی کامیابی ہے اور بھگوا پارٹی کو بہت پریشان کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمیں فکر کیوں کرنی چاہیے، انہیں تنقید کرنے دیں۔‘‘کہا جاتا ہے کہ راہول گاندھی سرینگر میں بھارت کاقومی جھنڈا لہرائیں گے جس کے بعد یہ یاترا اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔7ستمبر 2022 عیسوی کو کنیا کماری سے شروع ہونے والی اس یاترا کے دوران راہول گاندھی اور ان کے ساتھی تقریباً 150 دنوں تک چلتے رہیں گے جبکہ اس دوران قریب3500 کلومیٹر کا فاصلہ بھی عبور کیا جائے گا جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہوگا۔
کانگریس پارٹی کے قائد راہول گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ قریب12 ریاستوں سے گزرنے کے بعد 20 جنوری کو جموںو کشمیر میں داخل ہونے والی ہے اور30جنوری کو سرینگر میں اختتام پذیر ہوگی
اس لمبے سفر کے ذریعے کچھ ہو نہ ہو لیکن راہول گاندھی بھارت بھر میں حزب مخالف کی سب سے بڑی آواز بن کر اُبھر آئے ہیں اورانہوں نے اپنے آپ کو سیاسی اکھاڑے میں ایک لمبی ریس کا گھوڑاثابت کردیا ہے۔تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب پوری ریاستی مشینری یک طرفہ طور پر خلاف ہو، ملک کے جملہ سرمایہ دار آپ کی سرگرم مخالفت میں سرگرداں ہوں، تقریباً سارا میڈیا آپ کے مخالف ہو اور ان سبھی عوامل کے ساتھ ساتھ نریندر مودی جیسی آہنی قیادت آپ کے سامنے کھڑی ہو، ہزاروں کلومیٹر کا سفر، اور وہ بھی عوام الناس کے جم غفیر کو ساتھ لئے ،کوئی بچوں کا کھیل نہیں! یاترا کیا کانگریس پارٹی کو مستقبل قریب میں الیکشنی سیاست میں کچھ دے پائے گی یا نہیں ،یہ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن جیسا کہ پہلے ہی کہا گیا ہے ،اس کے ذریعے کانگریس پارٹی کو راہول گاندھی کی شکل میں ایک بڑی مدت تک چلنے والا لیڈر مل گیا ہے۔ یاترا کےلئے بنائے گئے کانگریس پورٹل کے مطابق’’ اس یاترا کا مقصدہندوستان کو متحد کرنا ہے۔یاترا کو پہلے ہی زبردست ردعمل ملا ہے۔ کانگریس قائدین کے ساتھ لاکھوں لوگ اس تحریک میں شامل ہوئے ہیں تاکہ ان معاشی، سماجی اور سیاسی مسائل کے خلاف آواز اٹھائیں جو آج ہماری قوم کو تقسیم کررہے ہیں۔ یاترا بے روزگاری اور مہنگائی، نفرت اور تقسیم کی سیاست اور ہمارے سیاسی نظام کی حد سے زیادہ مرکزیت کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اس تاریخی تحریک کا حصہ بننے کے لیے اکٹھے ہو رہے ہیں۔ یہ ہندوستان کے اتحاد، اس کے ثقافتی تنوع اور اس کے لوگوں کے ناقابل یقین استقامت کا جشن ہے۔یہ تمام ہندوستانیوں کو کھلی دعوت ہے کہ آئیں اور ہمارے ساتھ چلیں۔ہندوستان ہم سب کا ہے۔’بھارت جوڑو یاترا‘ ہم سب کی ہے۔‘‘ اس دعوے کے باوجود یہ بھی ایک سچی بات ہے کہ اس لمبے سفر سے متعلق باقی اپوزیشن کی خاموشی یا بے رخی 2024 عیسوی میں بی جے پی کے خلاف قومی اپوزیشن کی ممکنہ نااتفاقی کو ظاہر کررہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایک معروف بھارتی جریدے نے چھاپے گئے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی واضح طور پر یاترا سے دور رہی ہیں۔ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے بھی ایسا ہی کیا۔ سماج وادی پارٹی لیڈر اکھلیش یادو نے اتر پردیش سے گزرتے ہوئے یاترا سےمعنی خیز فاصلہ بنائے رکھا۔ بی ایس پی لیڈر مایاوتی کو بھی کئی دیگر اپوزیشن لیڈروں کی طرح راہل گاندھی کا ایک دستخط شدہ خط ملا تھا جس میں انہیں اتر پردیش کی یاترا میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔ انہوںنے شائستگی سے انکار کر دیا۔ اُڈیسہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنائک نے جواب دینے کی زحمت نہیں کی۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے حمایتی اشارے کیے لیکن فی الواقع دور رہے۔یہ سب 2024میں اپوزیشن اتحاد کی شکل کے بارے میں کیا پیشین گوئی کرتا ہے؟ اپوزیشن لیڈروں کو مخمصے کا سامنا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی کی انتخابی مہم کو سنگین چیلنج کرنے کا واحد طریقہ متحدہ محاذ کی تشکیل ہے۔2022عیسوی کے گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج نے دکھایا کہ کس طرح سہ رخی لڑائی بی جے پی کی مدد کرتی ہے۔ اس کے برعکس، ہماچل پردیش کے نتائج نے ظاہر کیا کہ، بڑے پیمانے پردو طرفہ مقابلے میں، بی جے پی کو شکست دی جا سکتی ہے۔
راہل گاندگی نے 2024ءمیں مودی کو چیلنج کرنے کے لیے کانگریس کو انتخابی پوزیشن میں لانے کے لیے بھارت جوڑو یاترا کا استعمال کیا ہے۔ سفید ٹی شرٹ میں شمالی سردیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کم تحفظ کے ساتھ سردی کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دن میں25 کلومیٹر سے زیادہ رفتار سے چلنے کی صلاحیت جس نے بہت سے ساتھی یاتریوں کی سانسیں اکھڑ کر رکھ دی ہیں۔لیکن راہل کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ لوک سبھا الیکشن جسمانی تنومندی کا نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی کا امتحان ہے۔
جاری ماہ جنوری کے دوران جموںو کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ یوپی میں اس قافلے میں والہانہ شریک ہوئے جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق چیف ، معروف قلم کار اور کشمیر معاملے کے ماہر دلت سنگھ نے راہول گاندھی کے ہمراہ اس قافلے میں شریک ہوکر کئی لوگوں کو حیران کردیا ہے
کچھ دوسرے ناقدین کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی کی پیدل یاترا کا وقت بہت زیادہ خراب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی نے جنوری2023 میں سفر کو اختتام کرنا ہے جبکہ قومی الیکشن2024 عیسوی میں ہونگے اور تب تک لوگ اس یاترا کو بھول بھال چکے ہونگے۔ کانگریس پارٹی اس لمبے سفر کے بعد گجرات سے اروناچل پردیش تک ایک اور پیدل یاترا کی شروعات کرکے اس خلا کو پر کرنے اور یوں اس تحریک کے معیاری اثر کو قائم رکھنے کا ارادہ کر چکی ہے۔اس ضمن میں جب ہم نےایک کانگریسی لیڈرسے سوال کیا کہ جب پوری اپوزیشن نے عملاً راہول گاندھی کی یاترا کا بائیکاٹ کیا ہے تو کیسے اور کیونکر یہ یاترا2024 عیسوی میں ووٹ میں تبدیل ہوسکتی ہے ،تو ان کا کہنا تھا کہ کانگریس اس بائیکاٹ کو نعمت غیر مترقبہ مانتی ہے کیونکہ اگلا الیکشن براہ راست راہول گاندھی اور نریندر مودی کے درمیان ہوگا اور نئے راہول گاندھی کے پاس مودی کا طلسم توڑنے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے جس کو وقت ثابت کردے گا۔ایسا بھی نہیں ہے کہ اس یاترا کو ہر طرف سے مسترد ہی کیا گیا ہو، بلکہ لاکھوں لوگوں کی شرکت کے علاوہ سیاسی، سماجی، ادبی، فنی اور دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد نے بھی اس میں شرکت کرکے راہول گاندھی کے ہم قدم چلنے کا عندیہ دیا ہے ۔کئی نچلی سطح کی تحریکیں بھارت جوڑو یاترا میں شامل ہو رہی ہیں یا اس کی تائید کر رہی ہیں۔ کانگریس نے شہریوں، تنظیموں اور تحریکوں سے بھی یاترا میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ سول سوسائٹی کے سینکڑوں ارکان نے کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا کی حمایت کرنے کی اپیل کی ہے۔ مارچ ستمبر کے آخر میں کرناٹک میں داخل ہونے والا تھا تو ریاست میں مقیم کم از کم89تنظیموں نے اس کی حمایت اور اس میں شرکت کا اعلان کیا۔ مارچ کے کرناٹک مرحلے میں نمایاں شرکاء میں مصنف اور دانشور، دیوانور مہادیوا، اور علمی و ادبی نقاد جی این دیوی شامل ہیں۔ارونا رائے، مزدور کسان شکتی سنگٹھن کی شریک بانی،سوراج انڈیا کے بانی یوگیندر یادو،گنیش دیوی، مصنف اور ثقافتی کارکن ،پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ حمید،بیزواڈا ولسن، صفائی کرماچاری آندولن کے بانی مرنل پانڈے، بھارتی صحافی دھرم ویر گاندھی ، عام آدمی پارٹی کے سابق ایم پی انجلی بھردواج، ہندوستانی سماجی کارکن سوجاتا راؤ، ہندوستانی سول سوسائٹی کی رکن ابھیجیت سین گپتا، ہندوستانی سول سوسائٹی کے رکن سریدھر رادھا کرشنن، ماحولیاتی کارکن سی آر نیلاکندن،معروف سماجی قائد میدا پاٹیکرکے ساتھ ساتھ معروف فلمی ہیرو اور سیاسی قائد کمالا ھاسن ، رتیش دیش مکھ،ریا سین، پوجابھٹ،سشانت سنگھ،مقتول لکھاری گوری لنکیش کے لواحقین، مقتول دلت لکھاری روہت ومولا کی والدہ وغیرہ نے اس سفر میں راہول گاندھی کے ساتھ چل کر مسافرین کا حوصلہ بڑھایا ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے اس سفر پر تنقید کرتے ہوئے اسےپریوار بچاؤ مارچ کا نام دیا۔دراوڑ منیترا کزگم نے یاترا کی پورے دل سے حمایت کی۔ خود اس جماعت کے لیڈرسٹالن7ستمبر کو کنیا کماری میں یاترا شروع کرنے کے لیے موجود تھے۔نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے ابتدا میں خود کو یاترا سے دور کر لیا، اس کے رہنما پی سی چاکو نے کہا کہ ’’کانگریس کی یاترا کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ یہ مردہ نہیں ہے‘‘ تاہم، این سی پی کے سربراہ شرد پوار نےپارٹی لیڈرکے ریمارکس پر پیچھے ہٹتے ہوئے، یاترا کو کانگریس اور راہول گاندھی کے لیے ’’بے حد مفید‘‘ قرار دیا۔ این سی پی کے سینئر لیڈران جیسے جینت پاٹل، سپریا سولے، اور جتیندر اوہاد نے ریاست مہاراشٹر میں بھارت جوڑو یاترا میں شمولیت اختیار کی۔شیو سینا نے اپنے ترجمان اخبارسامنا کے ذریعے یاترا کی حمایت کی اور بی جے پی پر تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ کانگریس کی یاترا سے خوفزدہ ہے۔شیو سینا کے رہنما سنجے راوت نے کہا کہ راہول گاندھی ایک ایسے شخص ہیں جو سیاسی اختلافات کے باوجود دوستی اور پیار کو زندہ رکھتے ہیں۔ راوت نے بھارت جوڑو یاترا کو ملنے والے زبردست ردعمل کو محبت اور ہمدردی سے منسوب کیا۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے ابتدائی طور پر ایک ٹویٹر پوسٹ میں کانگریس پر تنقید کی تھی تاہم سی پی آئی (ایم) نے جلد ہی یاترا پر اپنا موقف نرم کیا، اس کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے کہا کہ ’’ہر پارٹی کو عوام کے ساتھ بات چیت کرنے کا جائز حق ہے۔ لوگوں کے پاس جانا اچھا ہے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی پی آئی (ایم) آئین کے دفاع کے لیے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی کوششوں میں شامل ہو گی ۔سوراج انڈیا کے یوگیندر یادو نے بھارت جوڑو یاترا میں شمولیت اختیار کی اور اس یاترا کو ہندوستان کی دکشینا تحریک کے طور پر بیان کیا، جہاں جنوب کے اثرات شمال تک پہنچتے ہیں۔ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت یاترا کے آغاز کے فوراً بعد ملک میں اقلیتوں تک پہنچے۔ اس اچانک رسائی کو کانگریس پارٹی نے یاترا کے اثرات اور کامیابی کے طور پر دیکھا۔ ہالی ووڈ اداکار جان کسیک نے بھارت جوڑو یاترا کی حمایت کی اور کہا کہ وہ ہر جگہ فاشسٹ مخالف کے ساتھ یکجہتی میں کھڑے ہیں۔
جاری ماہ جنوری کے دوران جموںو کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ یوپی میں اس قافلے میں والہانہ شریک ہوئے جبکہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سابق چیف ، معروف قلم کار اور کشمیر معاملے کے ماہر دلت سنگھ نے راہول گاندھی کے ہمراہ اس قافلے میں شریک ہوکر کئی لوگوں کو حیران کردیا ہے۔ کانگریس کی اس ’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ اور ہندوستان کے سابق وزیر اعظم چندر شیکھر کی 1983میں تقریباً 4260 کلومیٹر لمبی بھارت یاترا کے درمیان کئی مماثلتیں ہیں۔جبکہ بھارت جوڑو یاترا میں مختلف قسم کے نعرے، شاعری اور گانوں کا استعمال کیا جارہا ہے جن میں’ ملے قدم، جوڑے وطن، مہنگائی سے ناتا توڑو، مل کر بھارت جوڑو ، بیروزگاری کا جال توڈو، بھارت جوڑو ، نفرت چھوڑو، بھارت جوڑو اور آئین بچاؤ وغیرہ شامل ہیں ۔کل ملاکر کہا جاسکتا ہے کہ تاحال یہ لمبا سفر کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔پیدل یاترا کے اس لمبے سفر کا آخری پڑائو چونکہ سرینگر میں متوقع ہے اس لئےاس کے جموں وکشمیر کی سیاست پر ممکنہ اثرات کے بارے میں ابھی سے دعوے اور جوابی دعوے کئے جارہے ہیں۔ایک مقامی کانگریسی قائد کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی جموں وکشمیر میں وارد ہوکر یہاں سیاست اور سیاسی کاوشوں پر عائد غیر اعلانیہ پابندیوں کے منحوس سحر کو توڑ دیں گے۔ جب ہم نے ایک سینئر صحافی کے سامنے یہ سوال رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ آیا جموں وکشمیر انتظامیہ راہول گاندھی کو کشمیر وارد ہونے کی اجازت دے گی بھی کہ نہیں ۔ اور اگر انہیں یہاں اترنے سے روکا جاتا ہو تو انتظامیہ اس کا کیا جواز پیش کرے گی۔ سینئر صحافی کا کہنا تھا کہ راہول گاندھی کو سیکورٹی تھریٹ کا بہانہ بناکر روکا جاسکتا ہے حالانکہ ایسا کرنے سے خود مرکزی حکومت اور اس کی ریاستی انتظامیہ کے ماضی قریب و بعید کے دعوے کہ کشمیر میںدفعہ370 ہٹنے کے بعد سب ٹھیک ٹھاک ہے کا بیانیہ دم توڑ دے گا۔ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سوالات کھڑے ہوں گے جن کا جواب دینا بہرحال انتظامیہ اور ان کے دہلی میں براجمان سرپرستوں کےلئے مشکل امر بن جائے گا۔ اب دوسرا پہلو یہ ہے کہ راہول گاندھی کو جموںو کشمیر میں آکر سیاست کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے تو یہ بھی بی جے پی کے لئے کوئی نیک شگون ثابت نہیں ہوگا۔بقول سینئر صحافی کشمیر میں آزادانہ سیاست اور سیاسی کاوشیں تو کجا کچھ کہنے اور بولنے تک پر جو اعلانیہ یا غیر اعلانیہ قدغنیں عائد ہیں اس کا سحر راہول گاندھی کا یہ ممکنہ دورہ توڑ سکتا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کشمیری معروف تمثیل ’ بغض یزید ہی سہی ‘ کے مصداق اس مارچ کا حصہ بنیں اور اس سفر کو ایک خوب انجام تک پہنچائیں ۔ بہرحال اس ضمن میں حتمی طورکچھ بھی نہیں کہاجاسکتا کیونکہ کشمیر میں بہرحال سفیدے کے درخت ہی ہیں جو سیدھے ہیں باقی سب ٹیڑھا ٹیڑھا ہی ہے۔ایک اور سیاسی مبصر کا کہنا ہے کہ جموںو کشمیر میں اس سفر کی آمد کا مجوزہ یا متوقع اثر اگرچہ کشمیر کی سیاست پر کچھ نہیں پڑے گا لیکن جموں صوبے کی سیاست پر اس کے گہرے اور دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔ جموں میں بی جے پی جس طبقے پر سب سے زیادہ اثر رکھتی ہے وہ تاجر طبقہ ہے۔ اس طبقے نے ڈی مانوٹائزیشن سے لیکر سخت ترین کووڈ پروٹوکول کی مار جھیلی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ دربار مو کے خاتمے اور دوسرے اقدامات نے بھی خاص طور پر چھوٹے تاجروں کی کمر معیشت توڑ کررکھ دی ہے۔ ایسے میں ممکن ہے کہ جموں میں بی جے پی کی حمایت میں کھڑے ووٹروں کی بڑی تعداد کانگریس خیمے میں لوٹ آئے ۔ یاترا کا بڑا اثر جموں صوبے میں موجود غلام نبی آزاد کی سیاست پر بھی ہوسکتا ہے۔ اگرچہ یاترا کی جموں وکشمیر آمد سے قبل ہی آزاد کی پارٹی ٹوٹ پھوٹ کے مراحل سے دوچار ہے لیکن وہ موسمی بٹیر جو جذبات کی رو میں بہہ کر کانگریس کو چھوڑ گئے تھے اور آزاد کی پارٹی کے حمایتی بنے تھے ان کا اپنے گھونسلے میں واپس لوٹنے کا عمل بھی اس یاترا کے بعد دیکھا جانا ممکن ہے۔
کشمیر یوں کی اکثریت اگرچہ حاشیے پر بیٹھ کر تماشائی بنے اس کھیل کا مزہ لینے میں مصروف ہیں لیکن یہاں کی سیاسی جماعتیں خاص طور پر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی وغیرہ یاترا کی کشمیر آمد کے گویا منتظر ہیں۔ کشمیر میں ایک سوچ یہ ہے کہ اگر راہول گاندھی کو کشمیر آنے دیا گیا اور یہاں ریلی کی اجازت مل گئی تو وہ5 اگست2019 کے بعد سے یہاںنافذ سیاسی ایمرجنسی جیسے حالات کو تبدیل کرسکتے ہیں۔گویا ان کی آمد سے یہاں سرگرم سیاست کا دور پھر سے شروع ہوسکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر انہیں یہاں آنے سے روکا گیا تو دہلی میں براجمان سرکار سے لیکر ان کی ریاستی انتظامیہ کے وہ سارے دعوے کہ جو وہ2019 کے بعد سے یہاں امن و استحکام میں بہتری ، تعمیر و ترقی وغیرہ کے متعلق کرتے رہتے ہیں سب ہوا میں تحلیل ہوجائیں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
کشمیر یوں کی اکثریت اگرچہ حاشیے پر بیٹھ کر تماشائی بنے اس کھیل کا مزہ لینے میں مصروف ہیں لیکن یہاں کی سیاسی جماعتیں خاص طور پر نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی وغیرہ بھارت جوڑویاترا کی کشمیر آمد کے گویا منتظر ہیں