امت نیوز ڈیسک //
نئی دہلی: راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ ہندوازم، قومیت سب کو اپنا ماننے اور ساتھ لے کر چلنے کی ہماری پہچان ہے اور ملک میں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے، لیکن اسے ‘ہم بڑے ہیں’ کا احساس چھوڑنا پڑے گا۔ بھاگوت نے کہا کہ ضروری ہے کہ ہندوستان، ہندوستان ہی بنا رہے۔ آج بھارت میں جو مسلمان ہیں انہیں کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہے وہ یہاں رہنا چاہتے ہیں رہیں، اگر کوئی اپنے آباؤ اجداد کے پاس واپس آنا چاہتے ہیں تو وہ ان کے اوپر ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن ہم بڑے ہیں، ہم ایک وقت راجہ تھے، ہم پھر سے راجہ بنیں گے، یہ سب سوچنا چھوڑ دینا پڑے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر ایسا سوچنے والا کوئی ہندو ہے تو اسے بھی یہ سب سوچنا چھوڑنا ہوگا۔ آبادی کی پالیسی کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بھاگوت نے کہا کہ سب سے پہلے ہندوؤں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ آج ہندو اکثریت میں ہیں اور ہندوؤں کی ترقی سے یہ ملک خوشحال ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آبادی ایک بوجھ بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک بہتر چیز بھی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ آبادی کے حوالے سے ایک پالیسی بنائی جائے جو سب پر یکساں طور پر لاگو ہونی چاہیے۔ اس کے لیے زبردستی سے کام نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہا کہ آبادی کا عدم توازن غیر عملی ہے کیونکہ جہاں عدم توازن ہوا وہاں ملک ٹوٹ گیا۔ بھاگوت نے کہا کہ صرف ہندو سماج ہی ایسا ہے جو جارح نہیں ہے۔ اس لیے ہر کسی کو عدم جارحیت، عدم تشدد، جمہوریت، سیکولرازم… کو محفوظ رکھنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ تیمور، سوڈان کو ہم نے دیکھا، پاکستان بنا یہ بھی ہم نے دیکھا ہے۔ ایسا کیوں ہوا۔۔؟ سیاست چھوڑیں اور غیر جانبدار ہو کر سوچیں کہ پاکستان کیوں بنا؟ انہوں نے کہا کہ جب سے تاریخ نے آنکھیں کھولی ہیں، بھارت اکھنڈ تھا۔ اسلام کے نام پر حملے اور پھر انگریزوں کے چلے جانے کے بعد یہ ملک کیسے ٹوٹا۔ یہ سب کچھ ہمیں اس لیے بھگتنا پڑا کہ ہم ہندو جذبے کو بھول گئے تھے۔ بھاگوت نے کہا کہ اب کسی کو ہماری سیاسی آزادی میں خلل ڈالنے کی طاقت نہیں ہے۔ اس ملک میں ہندو رہے گا، ہندو نہیں جائے گا، یہ اب ثابت ہو گیا ہے۔ ہندو اب بیدار ہو چکا ہے۔ اس کا استعمال کرکے ہمیں اپنے اندر کی جنگ جیتنی ہے اور ہمارے پاس جو حل موجود ہیں، انہیں پیش کرنا ہے۔ بھاگوت نے کہا کہ نئی نئی تکنیک آتی رہے گی۔ لیکن ٹیکنالوجی انسانوں کے لیے ہے۔ لوگ مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ ہونے لگے ہیں۔ اگر ایسے ہی رہا تو کل مشین کا راج ہوجائے گا۔ ایک ثقافتی تنظیم ہونے کے باوجود سیاسی ایشوز کے ساتھ آر ایس ایس کے منسلک ہونے پر بھاگوت نے کہا کہ سنگھ نے جان بوجھ کر خود کو روزمرہ کی سیاست سے دور رکھا ہے، لیکن وہ ہمیشہ ایسی سیاست سے جڑا رہا ہے جو ہماری قومی پالیسیوں، قومی مفاد اور ہندو مفاد کو متاثر کرتی ہے۔
ایک انٹرویو میں، موہن بھاگوت نے ایل جی بی ٹی کمیونٹی کی حمایت میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بھی اپنی ذاتی جگہ ہونا چاہیے اور سنگھ کو اس نظریے کو فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے جھکاؤ والے لوگ ہمیشہ رہے ہیں، جب سے انسانی وجود ہے، تب سے ان کا بھی وجود ہے۔ یہ زندگی کا ایک طریقہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں اپنی زمین کا حق ملے اور وہ محسوس کریں کہ وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تیسری جنس کے لوگ (ٹرانس جینڈر) مسئلہ نہیں ہیں۔ ان کی اپنی برادری ہے۔ ان کے اپنے دیوتا اور دیوی ہیں۔ اب ان کے پاس مہامنڈلیشور ہے۔ انہوں نے کہا کہ سنگھ کا کوئی الگ نقطہ نظر نہیں ہے، ہندو روایت نے ان چیزوں پر غور کیا ہے۔