بھارت جوڑویاترا کی کشمیر آمد کے بعد اختتامی تقریب تک جس انداز و تعداد میں کشمیریوں نے اس یاترا کوپذیرائی دی ہے اسےیقیناً فقید المثال کہا جاسکتا ہے۔ وادی کی تاریخ خاص طور پر پچھلی تین دہایئوں کی تاریخ میں یقیناً ایسے مواقع کم ہی آئے ہونگے کہ جب دہلی سے آنے والے کسی لیڈر کا اس طرح انتظار کیا گیا ہو اور پھر گھروں سے نکل کر اس کا استقبال بھی کیا گیا ہو
قریب پانچ مہینوں پر محیط اور 4 ہزار سے زائد کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرنے کے بعد30جنوری2023 عیسوی کے دن، کانگریس لیڈر راہول گاندھی کی’’بھارت جوڑو یاترا‘‘ سرینگر میں اختتام پذیر ہوگئی۔ شدید برف باری اور سخت سردی کے باوجود ریلی کی اختتامی تقریب جو سرینگر کے کرکٹ اسٹیڈیم میں منعقد ہوئی، میں لوگوں کی ایک کثیر تعدادنے شرکت کی ۔ کشمیر میں برف باری کے مناظر دیکھنے کے لئے یوں توبھارت بھر سے ہزاروں سیاح لاکھوں روپے خرچ کرکے یہاں آتے رہتے ہیں اور پھر جب برف باری کا یہ منظر دریائے جہلم کے کنارے آباد اور شاندار چناروں کے درمیان قائم کرکٹ اسٹیڈیم میں ہورہی ہو تو کیا کہنے! اسی اعصاب شکن ولیکن دل فریب برف باری کے درمیان راہول گاندھی دوسرے لیڈران کے ہمراہ کرکٹ اسٹیڈیم میں وارد ہوئے اور جم غفیر کی تالیوں سے اسقدر حرارت پاگئے کہ برف سے بچانے کے لئے اوپر چھتری لئے کارکن کو چھتری تک ہٹانے کا اشارہ کردیا۔
یاترا کی کشمیر آمد کے بعد اختتامی تقریب تک جس انداز و تعداد میں کشمیریوں نے راہول گاندھی کی بھارت جوڑویاترا کوپذیرائی دی ہے اسےیقیناً فقید المثال کہا جاسکتا ہے۔ وادی کی تاریخ خاص طور پر پچھلی تین دہایئوں کی تاریخ میں یقیناً ایسے مواقع کم ہی آئے ہونگے کہ جب دہلی سے آنے والے کسی لیڈر کا اس طرح انتظار کیا گیا ہو اور پھر گھروں سے نکل کر اس کا استقبال بھی کیا گیا ہو۔ کشمیریوں کے اس استقبال کے لئے گرچہ نیشنل کانفرنس کے سابق لیڈر اور بی جے پی کے موجودہ رکن دویندر سنگھ رانا ، راہول گاندھی کے بجائے دفعہ 370 کی منسوخی اور وزیراعظم مودی کی کشمیر پالیسی کی کامیابی قرار دیتے پھر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ بیانیہ محض مفروضہ اور ابن الوقتی کی مثال ہے۔بہرصورت راہول گاندھی بڑے طمطراق کے ساتھ جموں سے ہوتے ہوئے کشمیر وارد ہوئے اور یہاں لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر یقیناً خود بھی ششدر رہ گئے اور دوسرے کانگریسیوں کو بھی دھنگ کر گئے ۔ انہوں نے غالباً یہ سوچا بھی نہ ہوتا کہ کشمیر ی اس بڑی تعداد میں ان کے لئے نکل پڑیں گے لیکن یہ کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت تھی۔
قارئین کرام! ’’اُمّت‘‘ کے6 جنوری2023 کےشمارےمیں ہم نے بھارت جوڑو یاترا کے کشمیر وارد ہونے سے قبل ہی تحریر کیا تھا کہ اگر راہول گاندھی کو کشمیر وادی میں آنے کی اجازت ملی تو غالب گمان ہے کہ لوگ ان کےلئے نکل پڑیں گے اور اس میں ان کی یا کانگریس کی محبت سے زیادہ لوگوں کا موجودہ حکمرانوں کے خلاف غم و غصہ کارفرماہوگا۔یہی ہوا اوربھارت جوڑو قافلہ جیسے ہی ٹنل پار کرکے وادی کی حدود میں پہنچا تو لوگوں کی بھیڑ کے ساتھ ساتھ میڈیا سے وابستہ لوگوں کی بڑی تعداد اس کے شانہ بشانہ چلنے لگی۔
میڈیا والوں نے جگہ جگہ اس ریلی میں شریک یا اس کے استقبال کےلئے موجود لوگوں کی رائے جاننے کی کوششیں کیں ۔ ایسا ہی سرینگر میں کرکٹ اسٹیڈیم اور ماقبل لال چوک میں ترنگا لہرانے کی تقریب کے وقت بھی ہوتا رہا۔ واضح رہے کہ لال چوک پر ترنگا لہرانے کی اس رسم کو پہلے کانگریس نے آر ایس ایس کا ایجنڈا قرار دے کر اس سے اجتناب کی بات کی تھی لیکن سرینگر وارد ہوجانے کے بعد ایک یو ٹرین لے کر ایسا کیا گیا۔ ۔۔استقبالی ریلی میںشامل ایک کشمیری نوجوان جس نے اپنا نام عابد بتایا اور خود کو مقامی کانگریس کا لیڈر قرار دیا‘ سے جب سوال کیا گیا کہ آیا کشمیریوں کے اس قسم کے استقبال کی انہیں توقع تھی۔ ان کا جواب تھا کہ2019 اور اس کے بعد سے بی جے پی حکومت جو کچھ کشمیریوں کے خلاف کررہی ہے،راہول گاندھی اور کانگریس اس سے نجات دلوائیں گے۔ یہی اُمید عوام کو آج راہول گاندھی کے استقبال پر مائل کرچکی ہے۔ لیتہ پورہ جہاں راہول گاندھی چائے پینے کی غرض سے کچھ دیر رُکے،وہاں مرکزی شاہراہ پر موجود کچھ کشمیری جوانوں سے جب سوال کیا گیا کہ وہ راہول گاندھی کےلئے کیوں نکلے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ دراصل یہ ریلی سہمے،ڈرے اور دم بخود کشمیریوں کےلئے ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے اور ہر ایک متنفس تازہ ہوا کے جھونکےپاکر اس میں سانس لینا ہی چاہتا ہے۔ میڈیا والوں نے سوال کیا کہ کیا وہ کانگریس کے حمایتی ہیں تو ایک لڑکا جس نے بتایا کہ وہ بی ٹیک کا طالب علم ہے نے کہا کہ وہ کسی بھی پارٹی کے ووٹر یا سپوٹر نہیں ہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر نکلے ہیں۔
سرینگر میں مقیم سیاسی تجزیہ کار اور کشمیری یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے سابق سربراہ نور احمد بابا نے ایک نیوز پورٹل کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت جوڑو ریلی کو یقیناًکشمیر میں قابل قدر عوامی حمایت ملی ہے۔ روایتی طور پر کانگریس کو کشمیر میں کوئی زیادہ عوامی حمایت حاصل نہیں ہے اور موجودہ بھارت جوڑو یاترا کو ملنے والی پذیرائی دراصل اسکی محبت یا حمایت سے زیادہ بی جے پی کے خلاف عوامی غصے کی نشاندہی کرتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بات ضروری نہیں اس ریلی کے حق میں نکلنے والے لوگ کانگریس یا اس کی پالیسیوں کے حامی ہوں لیکن چونکہ کشمیر میں پچھلے قریب چار سال سے سیاسی کاوشیں مکمل طور پر معطل ہیں اسلئے آج لوگوں کو بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرنے کا موقع ملا ہے، لوگ یہ سمجھتے ہیں انہیں آج ایک محفوظ موقع ملاہے کیونکہ کانگریس ایک بڑی پارٹی ہے اور اس کی ریلی میں شریک ہونے والے کو کوئی بھی ملک دشمن کہہ کر زیر عتاب نہیں لا سکے گا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کانگریس پارٹی اور اسکے لیڈر راہول گاندھی تو واضح طور پر دفعہ370کی بحالی سے متعلق کچھ نہیں کہہ رہے ہیں ؟ اس پر موصوف کا کہنا تھا کہ یہ سچ ہے کہ کانگریس نے آرٹیکل 370کی بحالی کے لیے حمایت کا اظہار کرنے کا خطرہ مول نہیں لیا ہے لیکن جموں و کشمیر کے لوگ اس جماعت سے مقامی لوگوں کے لئے ملازمت اور زمین و جائیداد کے حقوق کے تحفظ کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔لوگ کم از کم کانگریس سے اُمید رکھ سکتے ہیں، انہیں بی جے پی سے کوئی امید نہیں ہے جس نے ان سب چیزوں کو چھین لیا ہے۔
کرکٹ اسٹیڈیم میں موجود سرینگر کے کچھ جوان لڑکوں سے جب نامہ نگاروں نے برف باری کے باوجود ریلی میں شرکت کرنے کی وجہ دریافت کی تو ان کا کہنا تھا کہ ایسی ریلیوں میں روپے پیسے کی لالچ، نوکریاں دینے کا وعدہ یا پھر اسی قسم کی ترغیب دے کر لوگوں کو لایا جاتا ہے لیکن ہم رضاکارانہ یہاں آئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی بھی مرکزی دھارے کی جماعت کے حمایتی نہیںبلکہ پچھلے چار برس کے بعد آج ہمیں ایسی کسی ریلی میں جس میں کشمیریوں کے حق میں کوئی بات ہونے کی توقع ہے‘ شرکت کا موقع میسر ہوا ہو اور یہ ہمارے لئے کڑاکے کی سردی میں روشن سورج کی تپش جیسا احساس ہے۔ ان نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ’’یہ ریلی کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی ، ہندوستان میںفرقہ واریت کو روکنے اور ایک اچھا ماحول بنانے کا عزم ہے ۔ یہ بی جے پی کی سیاست کے بالکل برعکس ہے، اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہم کسی بھی مرکزی دھارے کی پارٹی کے حامی نہ ہونے کے باوجود اس میں شریک ہیں۔‘‘
اسی طرح ریلی کے ساتھ ساتھ چلنے والے ایک بزرگ شخص جس نے اپنے پوتے کو اپنے شانوں پر اٹھارکھا تھا کی ایک عدد ویڈیو بھی سماجی ویب سائٹوں پر بڑی وائرل ہوئی۔ یہ بزرگ خود کو نیشنل کانفرنس کا ووٹر کہتے ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ وہ راہول گاندھی کی یاترا کےلئے اتنے پرجوش کیوں ہیں تو موصوف کا برملا کہنا تھا کہ پچھلے برسوں کا ظلم و جبر جو کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی چلاجارہا ہے نے اسے اس ریلی میں شریک ہونے کی جانب راغب کیا ہے۔ بزرگ کا کہنا تھا کہ پہلے ہم سے سیاسی اقتدار ،خاص پوزیشن ،نوکریاں ،کاروبار چھین لیا گیا اور اب سرکاری زمینوں کے نام پر مکان ،کاروباری ادارے چھیننے کا سامان کیا جارہا ہے۔ اس ظلم کے خلاف کوئی شنوائی تک نہیں ہورہی ہے۔ ہمیں کانگریس اور راہول گاندھی سے اُمید ہے کہ وہ ہم پر ہورہی اس تعدی کو روکنے کی کوشش کریں گے۔ ایک سیاسی مبصر سے جب ہم نے سوال کیا کہ کانگریس تو اپنے بہترین دور میں بھی کشمیر وادی کے اندر محض چند ایک جگہوں پر ہی عوامی حمایت رکھتی تھی ،تو سرد یخ بستہ موسم میں اس ریلی میں لوگ کہاں سے وارد ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بھیڑ کانگریس کی اپنی نہیں تھی بلکہ نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، کیمونسٹ پارٹی وغیرہ جیسی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کی تھی۔ ہاں اس میں کچھ تعداد تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق حالات کی ستم ظریفیوں کے مارے لوگوں کی بھی ہوسکتی ہے لیکن فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی وغیرہ کی کھلے عام اس یاترا میں شرکت سے کیا واضح نہیں ہورہا تھا کہ لوگ کہاں کہاں سے اس کے ساتھ جڑ رہے تھے۔
کشمیر میں اس پیدل یاترا میں جو جماعتیںشریک ہوئے ان میں ڈی ایم کے، این سی، پی ڈی پی، سی پی آئی، آر ایس پی اور آئی یو ایم ایل شامل ہیں۔ بی ایس پی ایم پی شیام سنگھ یادو نے بھی اپنی ذاتی حیثیت میں اختتامی تقریب میں شرکت کی۔جبکہ جموںو کشمیر ریاست کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت کئی سیاسی لیڈران اور انکے وابستگان نے بھی راہول گاندھی کے قدم سے قدم ملاکر ریلی میں شرکت کی۔سرینگر ریلی میں تو ان لیڈران نے دھواں دھار تقاریر بھی کیں۔ پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی، جو کانگریس کی ریلی کا حصہ تھیں، نے کہا کہ پورا ملک راہول گاندھی میں اُمید کی کرن دیکھ رہا ہے۔راہل، آپ نے کہا تھا کہ آپ کشمیر میں اپنے گھر آئے ہیں، یہ آپ کا گھر ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ گوڈسے کے نظریے نے جموں و کشمیر سے جو چھینا تھا، وہ اس قوم کو سود سمیت واپس کردیا جائے گا۔ محبوبہ کا کہنا تھا کہ گاندھی جی کا قول تھاکہ انہیں جموں و کشمیر میں اُمید کی کرن نظر آئی ہے؛ آج قوم راہل گاندھی میں اُمید کی کرن دیکھ رہی ہے۔ نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ نے گاندھی خاندان پر زور دیا کہ وہ مغرب سے مشرق کی یاترا بھی کریں۔عمر کا کہنا تھا کہ ہم اس کے ساتھ چلنا چاہیں گے،یہ ایک بہت کامیاب یاترا رہی ہے۔ قوم کو اس کی ضرورت تھی۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ ایسے لوگ ہیں جو بی جے پی کو پسند کرتے ہیں اور ایسے لوگ ہیں جو ہم آہنگی اور امن کو پسند کرتے ہیں جو بی جے پی نہیں دے سکتی، انہوں نے کہا۔
ریلی میں شامل راہول گاندھی کی بہن پرینکا گاندھی کا کہنا تھا کہ بھارت جوڑو یاترا ایک روحانی یاترا تھی۔میں کہہ سکتی ہوں کہ ملک میں جو سیاست چل رہی ہے اس سے قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ ایسی سیاست جو تقسیم کرتی ہو اور اتحاد کو توڑتی ہے، قوم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اسی لئے ایک طرح سے، یہ ایک روحانی یاترا تھی۔انہوں نے کہاکہ جب میرا بھائی کشمیر آ رہا تھا، اس نے میری ماں اور مجھے ایک پیغام بھیجا، اس نے کہا کہ اسے اپنے گھر جانے کا ایک انوکھا احساس ہورہاہے۔ اس نے کہا کہ اس کے گھر والے اس کا انتظار کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ ان اپنوںکے درد اور جذبات اس کے اپنے دل میں گویا داخل ہو رہے ہیں۔خود راہول گاندھی کا ریلی سے خطاب مدنظر رکھا جائے تو وہ بھی کافی چیزوں کی وضاحت کررہا تھا۔ پوری ریلی کےلئے سفید ٹی شرٹ اور کالا ٹرائوزر پہننے والے راہول نے ایک عدد کشمیری فرن زیب تن کیا۔ تشدد اور ظلم،نیز اپنے والد اور دادی کے بے رحمانہ قتل کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے وہ جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ ان دونوں اوقات پر انہیں فون کالیں آئیں تھیں اور ان سے ان کے پیارے چھین لئے گئے۔ ایک بار پھر بی جے پی اور آر ایس ایس پر ملک میں نفرت اور تشدد پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے راہول گاندھی کا کہنا تھا کہا کہ نہ تو وزیر اعظم نریندر مودی، نہ ہی وزیر داخلہ امیت شاہ یا قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول ان کے درد کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قتل و غارت کس طرح تکلیف دیتا ہے، آپ کو نہیں۔ اپنی دادی اندرا گاندھی کے قتل کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے یاد کیا کہ یہ ان کے لیے کتنا تکلیف دہ اور پریشان کن تھا کہ جب انہیں ایک فون کال موصول ہوئی تھی جب وہ محض14سال کے تھے۔ انہیںدادی کے قتل کے بارے میں بتایا گیا تھا، اور پھر دوسری بار یہی فون کال آئی تھی اور انہیں والد کے قتل کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ اس غم و اندوہ، تکلیف کا اندازہ مجھے ہوسکتا ہے، میری بہن کو ہوسکتا ہے،کشمیر کے لوگ، سی آر پی ایف اور فوج کے جوانوں کے اہل خانہ، پلوامہ حملے میں اپنی جانیں دینے والے فوجیوں کے بچے جانتے ہیں کہ اس طرح کی فون کالز کیا ہوتی ہیں۔ مودی، امیت شاہ، اجیت ڈوول اور آر ایس ایس کے لوگ جو تشدد کو فروغ دیتے رہتے ہیں، اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ اس یاترا کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے فون پر اس طرح کی کالیں آنا بند ہو جائیں۔ کوئی بچہ، کوئی بیٹا، کسی ماں کو ایسی فون کالز نہیں ملنی چاہئیں۔ میرا مقصد ان فون کالز کو روکنا ہے۔کانگریس لیڈر نے کہا کہ ہندوستان کی بنیاد اور اس کی جامع ثقافت کی بنیادی اقدار بی جے پی اور آر ایس ایس کی زد میں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ میں نے بھارت جوڑو یاترا اپنے یا کانگریس پارٹی کے لیے نہیں بلکہ اس ملک کے لوگوں کے لیے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہندوستان کے اس نظریے، ملک کے سیکولر اور لبرل اخلاق کو بچانے کے لیے کیا ہے۔
بہرحال یہ یاترا بخیر و خوبی اپنے اختتام کو پہنچی اور کشمیریوں نے بھی چاہے ان چاہے اس میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔اب اس یاترا ،اسکے لیڈر راہول گاندھی کی کشمیر آمداور کچھ میٹھی میٹھی باتیں اور پھر عرصہ دراز بعد کشمیریوں کا گھروں سے نکل کر کسی سیاسی پروگرام میں شرکت اور چار و ناچار حکمرانوں کا اس کی اجازت دینا آگے کیا گل کھلائے گا، کوئی نہیں جانتا۔کیا واقعات کشمیر کی سیاسی زندگی کو لاحق جمود کو توڑنے میں معاون ہوگا، کیا اس سے برف پگل جائے گی،کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ایک چیز ہے جو عیاں اور بیان ہے اور وہ یہ ہے کہ کشمیری اس جمود کو توڑنے کےکسی بھی موقعے سے پہلو تہی نہیں برتیں گے۔
بھارت جوڑویاترا کشمیر کی سیاسی زندگی کو لاحق جمود کو توڑنے میں معاون ہوگا، کیا اس سے برف پگل جائے گی،کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن ایک چیز ہے جو عیاں اور بیان ہے اور وہ یہ ہے کہ کشمیری اس جمود کو توڑنے کےکسی بھی موقعے سے پہلو تہی نہیں برتیں گے