ایک وقت میںسرگرم سیاسی سرگرمیوں کی آماجگاہ ،بھارت کے بڑے بڑے سیاسی و سماجی قائدین سے لیکر امریکہ،برطانیہ، پورپی یونین اور دوسرے عالمی اداروںکی بارہا میزبانی کرنے والی عمارت کو قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کی درخواست پر خصوصی عدالت کے حکم پر منسلک کردیا گیا ۔
این آئی اے کی ایک خصوصی عدالت نے سرینگر کے راج باغ علاقے میں کل جماعتی حریت کانفرنس (اے پی ایچ سی) کے دفتر کو منسلک کرنے کا حکم دیا جس کے بعد اس آفس کو منسلک کرنے کے لئے این آئی اے کی ٹیم راج باغ پہنچی اور دفتر پر اس حکم نامے کو چسپاں کردیا۔27 جنوری کو’’ دہشت گردی کی معاونت ‘‘کے عنوان سے کیس کی شنوائی کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج نئی دہلی مسٹر شلیندر ملک نے حکم دیا ہے کہ’’ غیر منقولہ جائیداد یعنی راج باغ میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے دفتر کی عمارت جو پہلے اے پی ایچ سی کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتی تھی، کو منسلک کیا جائے اور اس سلسلے میں ضروری قانونی کارروائی کی جائے۔‘‘ اس سے قبل اپنی ایک درخواست میں، این آئی اے نے عدالت کے سامنے کہا تھا کہ ملزم حریت رہنما نعیم احمدخان کے خلاف کافی شواہد موجود ہیں جو جزوی طور پر اس جائیداد کے مالک ہیں۔این آئی اے نے عدالت میں عرض کیا ہے کہ یہ جائیداد ’دہشت گردی اور علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں‘ کی منصوبہ بندی اور انجام دہی کے لیے استعمال کی جا رہی تھی اوراس طرح جائیداد کو ضبط کرنے کے لیے یو اے پی اے کی دفعہ33(1) کے دفعات کا اطلاق ہوتا ہے۔یاد رہےاس کیس میںسینئر حریت رہنما نیشنل فرنٹ کے چیرمین نعیم احمد خان کو کیس کی تفتیش کے دوران24 جولائی2017 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں اب تک12ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی ہے جبکہ کالعدم لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک کو پہلے ہی عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔
این آئی اے نے کہا کہ ملزم نعیم احمدخان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے کے لیے دستاویزی، الیکٹرانک اور زبانی شکل میں کافی ثبوت موجود ہیںاور عدالت سے استدعا کی جاتی ہے کہ مذکورہ عمارت جسے اے پی ایچ سی کے ممبران غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے استعمال کر رہے تھے‘ کو شامل کیس کیا جائے۔این آئی اے کا مزید کہنا تھا کہ ’’ملزم نعیم احمدخان اس پراپرٹی کا شریک مالک ہے اور اسے قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے۔ اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ مذکورہ غیر منقولہ جائیداد کو دہشت گردی اور علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں کی منصوبہ بندی اور انجام دہی اور ایسے جرائم کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا جن کے لیے ملزم پر پہلے ہی فرد جرم عائد کی جا چکی ہے، اس لیے مذکورہ جائیداد یعنی راجباغ سرینگر میں واقع اے پی ایچ سی کی عمارت یو اے پی اے ایکٹ کے تحت منسلک کی جائے۔ ‘‘جج موصوف نے اس موقع پر متعدد فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے، نوٹ کیا کہ’’ سیکشن24دہشت گردی سے حاصل ہونے والی آمدنی کے بارے میں بتاتا ہے اور اس میںدہشت گردی کے لیے استعمال ہونے والی کوئی جائیداد بھی شامل ہوگی؛اے پی ایچ سی وہ جگہ تھی جہاں مختلف مظاہروں کی حکمت عملی طے کرنے، سیکورٹی فورسز پر پتھراؤ کی سرگرمیوں کو فنڈکرنے، غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے بے روزگار نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ سابقہ ریاست جموں و کشمیر میں بدامنی پیدا کرنے کے لیے دہشت گردانہ سرگرمیوں اور حکومت ہند کے خلاف جنگ کے لیے میٹنگیں منعقد کی جاتی تھیں۔‘‘یہ وہ اہم نکات تھے جنہیں دہلی کی عدالت نے نوٹ کیا اور حکم دیا کہ مذکورہ جائیداد کو منسلک کرنے کے لئے مناسب کارروائی کی جائے۔ تاہم اپنے فیصلے میں جج موصوف نے لکھا ہے کہ اس عدالتی فیصلےکے مطابق منسلک کردینے کا بذات خود یہ مطلب نہیں ہے کہ اس پراپرٹی کے بارے میں مقدمے سے قبل کوئی نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔مذکورہ عدالتی فیصلے کے دوسرے ہی دن این آئی اے کی ایک ٹیم راجباغ پہنچی اور حریت کانفرنس کے مذکورہ آفس کی تلاشی لی۔ جس کے بعد اس ٹیم نےعمارت کے مرکزی گیٹ پر ایک عدد نوٹس چسپاں کردی جس پر مذکورہ عدالتی حکم نامہ درج تھا۔عمارت کی دیوار پر ایک اٹیچمنٹ بورڈ لٹکا دیا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ تمام عوام کو مطلع کیا جاتا ہے کہ جس عمارت میں کل جماعتی حریت کانفرنس کا دفتر راجباغ واقع ہےیہ نعیم احمد خان کی مشترکہ ملکیت ہے، جو اس وقت این آئی اے کورٹ دہلی میں کیس کا سامنا کر رہے ہیں، اس عمارت کو این آئی اے خصوصی عدالت پٹیالہ ہاؤس نئی دہلی کے حکم بمطابق27 جنوری2023 منسلک کررہی ہے ۔
واضح رہے کہ مذکورہ تاریخی عمارت ایک بڑے عرصے تک جموں کشمیر میں سیاسی، سماجی، سفارتی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی سرگرمیوں کےلئے بڑی سرگرم جگہ رہی ہے۔ یہی وہ مقام تھا کہ جہاں بھارت کے بڑے بڑے سیاسی،سماجی اور سول سوسائٹی سے وابستہ لیڈران آتے رہتے تھے۔ یہ وہی تاریخی جگہ ہے کہ جسکو امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور دوسرے ممالک کے سفیروں، سفارت کاروں اور سیاسی لیڈران کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہا ہے۔ یہ عمارت حریت کانفرنس کے نرم خو مانے جانے والے دھڑے یعنی میرواعظ محمد عمر فاروق والی حریت کے زیر تسلط تھی جس پربادی النظر میں کوئی پابندی بھی عائد نہیںہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ2019 کے بعد یہ عمارت کسی بھی سیاسی سرگرمی میں شامل نہیں رہی ہے اور کچھ ملازموں کے سوا یہاں کوئی بھی آتا جاتا نہیں تھا۔ منسلک کردینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف کیا میرواعظ حریت کسی عدالت میں کوئی اپیل یا نظر ثانی کی درخواست کرے گی اس بارے میں بھی فی الحال کچھ نہیں کہا جارہا ہے۔ البتہ کل جماعتی حریت کانفرنس نے اس ضمن میںجاری ایک بیان میںکہا ہے کہ حریت دفتر کے درودیوار پر بار بار یلغار حکومت کے زیر کنٹرول میڈیا کے ذریعے اس کی وسیع پیمانے پر تشہیر سےجموںوکشمیر کے عوام کے جذبے کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔بیان میں کہا گیا کہ دفتر پر زرخرید عناصر کے ذریعے حملے ہوں یا کسی خاص برادری کے چند افراد کے ذریعے اس کی شبیہ کو بگاڑنے کی کوشش اور اب یکطرفہ عدالتی حکم کے تحت دفتر کو منسلک کرنے کی کارروائی اور بعد میں فوری طور پر میڈیا کووریج کیلئے نوٹس چسپاں کرنے کے عمل سے حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے جیسے اس نے کوئی بہت بڑی فتح حاصل کرلی ہے۔ حریت نےاپنے بیان میں مذید کہا ہے کہ جو لوگ جموںوکشمیر کو کنٹرول میں رکھنے کے دعویدار ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ عوام پُر امن ذرائع سے تنازع کشمیر کے حل کرنے کے خواہشمند ہیں اور یہ جذبہ عوام میں پیوست ہے اور حریت عوامی جذبات اور احساسات کی ترجمان ہے ۔بیان میں کہاگیا ہےکہ مصنوعی اقدامات سے لوگوںکو ان کے جذبات سے دست کش نہیں کیا جاسکتااور اس طرح کی کارروائیوں کا مقصد اپنے ووٹ بنک کا حصول ہے جسے جموںوکشمیر کے عوام بخوبی سمجھتے ہیں۔حریت نے بیان کے ذریعےایک بار پھر بھارت اور بیرون ممالک کے انسانی حقوق کی تنظیموں سے گزارش کی کہ وہ جملہ قیادت اور سیاسی کارکنوں کے علاوہ انسانی حقوق کے ارکان ، صحافیوں، نوجوانوں اور سینکڑوں کشمیری جنہیں سیاسی نظریات کی بنیاد پر قید و بند میں رکھا گیا ہے ان کی فوری رہائی کیلئے حکومت ہند پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔