امت نیوز ڈیسک //
ماسکو:ہفتے کی رات ویگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوژن اور روس کے درمیان بالآخر سمجھوتہ ہوگیا۔ اس سمجھوتے کے تحت پریگوژن کو بیلاروس منتقل ہونا ہوگا۔ کریملن کے ترجمان دمتری ایس پیسکوف نے کہا کہ پریگوزن بیلاروس جائیں گے۔ ان کے ساتھ بغاوت کرنے والے جنگجوؤں کے خلاف ‘روسی فوج میں ان کی خدمات’ کو نظر میں رکھتے ہوئے مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔
روس کو نیا صدر دینے کی بات کرنے والے یوگینی کو 12 گھنٹوں میں ماسکو سے سمجھوتہ کرنے مجبور ہونا پڑا۔ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے ویگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوژن کے ساتھ بات چیت کی اور ان کا روس کا معاہدہ طے کرنے میں اہم کردار نبھایا، جس کے تحت پریگوزن نے اپنی جنگوؤں کو پیچھے ہٹنے کا حکم دے دیا۔وہیں ویگنر چیف پریگوزن نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ‘خونریزی ہو سکتی تھی، ٹکراؤ کی صورت میں دونوں طرف سے روسیوں کا خون بہتا۔ اس لیے ایک فریق نے ذمہ داری سمجھی تاکہ اسے روکا جا سکے۔ ہم اپنے قافلے کو پیچھے ہٹا رہے ہیں اور پلان کے مطابق فیلڈ کیمپوں میں واپس جا رہے ہیں۔ بیان کے چند گھنٹوں کے اندر، ویگنر کے جنگجوؤں کو روسٹوو شہر میں اپنے ٹرکوں میں سوار ہوتے اور شہر سے نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہاں لوگوں نے ویگنر کے سپاہیوں کے ساتھ سیلفیاں لیں۔
پوتن کے قریبی اور بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے اس بغاوت کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے، لوکاشینکو نے روس اور یوگینی کے درمیان ایک معاہدہ کرایا، جس کے بعد پریگوژن نے اپنے فوجیوں کو واپس جانے کا حکم دیا۔ لوکاشینکو کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اس بات چیت کے دوران پوتن کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا، جس کے بعد سمجھوتے پر اتفاق ہو سکا اور یوگینی نے پیچھے ہٹنے پر رضامندی ظاہر کی۔ یوگینی اب بیلاروس میں رہیں گے۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ ‘نجی روسی فوجی کمپنی ویگنر کے سربراہ کشیدگی کم کرنے کے معاہدے کے تحت ہمسایہ ملک بیلاروس چلے جائیں گے اور ان کے خلاف فوجداری مقدمہ بند کر دیا جائے گا۔’
کریملن نے واضح کیا کہ بغاوت کے مقدمے میں یوگینی پریگوزین کے خلاف الزامات واپس لے لیے جائیں گے اور ان کے ساتھ اس بغاوت میں شامل ہونے والے جنگجوؤں کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جائے گا، بلکہ انہیں روسی فوج میں شامل ہونے کے معاہدے پر دستخط کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ یوگینی خود بیلاروس چلے جائیں گے۔ بحران کو کم کرنے کے لیے حکومت نے بھی معاہدہ قبول کر لیا ہے۔