یہ ایک تاریخی اعلان ہے جو بے خانماں لوگوں کی تقدیر بدل دے گا: حکومت
اقدام جموں وکشمیر کے لوگوں کے حق پر شب خون مارنے کا عمل: حزب اختلاف
4 جولائی2023ء کوجموں وکشمیر انتظامیہ نے وزیر اعظم آواس یوجنا (پی ایم اے وائی) کے تحت مکانات کی تعمیر کے لیے بے زمین خاندانوں کو5مرلہ زمین الاٹ کرنے کی تجویز کو منظوری دےدی ۔انتظامیہ کے مطابق یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ ہے لیکن حزب اختلاف کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر حلقے اس فیصلے کے پس پردہ نیت پر شکوک کا اظہار کررہے ہیں۔
بے زمین لوگوں کو زمین تفویض کرنے کے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ یہ جموں وکشمیر کے لیے ایک تاریخی دن ہے اور ہزاروں بے زمین خاندانوں کے لیے زندگی کی ایک نئی شروعات ہے۔انہوں نے کہا کہ ’تاریخی فیصلہ‘ان کی انتظامیہ کی سماجی انصاف، مساوات، باہمی احترام اور تمام شہریوں کے لیے یکساں مواقع بہم رکھنے کی کوششوں کا حصہ ہے اور یہ فیصلہ ان کوششوں کے ضمن میں ایک سنہری باب ثابت ہوگا۔ایل جی سنہا نے مزید کہا کہ ’’یہ اختراعی فیصلہ نہ صرف بے زمین غریبوں کو زمین کا ایک ٹکڑا رکھنے اور مکان رکھنے کا حقدار بنائے گا بلکہ یہ انہیں بہتر ذریعہ معاش بھی فراہم کرے گا، اس سے ان کا معیار زندگی بلند ہو گا اوریہ قدم ان کے خوابوں اور خواہشات کو پورا کرے گا۔‘‘ قابل ذکر بات یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں غریب خاندانوں کو زمین فراہم کرنے کا فیصلہ انتظامی کونسل نے گزشتہ ماہ 21 جون کو اپنی میٹنگ میں لیا تھا۔ایل جی نے مذید کہناتھا کہ معاشرے کا غریب طبقہ حکومتی پالیسیوں کے محورہے اور ایک بڑی آبادی جو کہ آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی بنیادی سہولیات اور حقوق سے محروم تھی کو تعمیر و ترقی کے دھارے میں لایا جا رہا ہے۔ ان کا مذید کہنا تھا کہ جموں وکشمیر حکومت جامع ترقی کے لیے پرعزم ہے۔ اس اقدام سے غریبوں اور پسماندہ افراد کے لیے لامتناہی مواقع کھلیں گے اور اس تاریخی فیصلے کے ساتھ انتظامیہ قوم کی تعمیر کے کام میں ان کی بے پناہ شراکت کا اعتراف کر رہی ہے۔ایل جی کا کہنا تھا کہ چند سال پہلے وزیر اعظم نے فیصلہ کیا کہ ہر غریب کے سر پر چھت ہونی چاہیے۔ یہاں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ بے زمین خاندانوں کو زمین دینے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ہم نے پی ایم اے وائی کے تحت بے زمین مکانات کی تعمیر کے لیے زمین فراہم کرنے کے لیے انتظامی کونسل میں ایک پروویژن بنایا اور اس کی منظوری دی۔ہم نے جموں و کشمیر میں2017 بے زمین خاندانوں کو پلاٹ دیئے ہیں۔ ہم اپنے پاس موجود فہرست کے مطابق زمین فراہم کریں گے اور امید ہے کہ مارچ2024 ء تک موجودہ بیک لاگ کو مکمل کر لیا جائے گا‘‘ ۔سنہا نے کہا کہ ’’محکمہ دیہی ترقی نےایک اعشاریہ تراسی لاکھ خاندانوں کی نشاندہی کی ہے جن کے پاس اپنے گھر نہیں ہیں۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جو نہ صرف انہیں گھر فراہم کرے گا بلکہ ان کی زندگیوں کو بدل دے گا۔‘‘ مسٹر سنہا کا مذید کہنا تھا کہ رہائشی ضروریات کا خیال رکھنے کے ساتھ، یہ خاندان اپنے بچوں کے لیے بہتر معاش اور تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں گے۔ یہ انہیں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا کام کرے گا۔‘‘ایل جی کا مذید کہنا تھا کہ یونین ٹیریٹری انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ باقی ماندہ بے زمین خاندانوں کو زمین فراہم کرے۔’’پچھلےتین چارسالوں میں، ہمیں لوگوں کو سماجی انصاف فراہم کرنے میں کامیابی ملی ہے۔ ہمارے دعووں اور عمل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔‘‘سنہا نے نئی اسکیم کے تحت استفادہ کنندگان کی کوئی بھی تفصیلات بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم مذہب یا علاقے کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کرتے ہیں۔ ہم نے ان لوگوں کو زمین فراہم کی ہے جو قانون کے مطابق مستحق تھے۔‘‘ اس موقع پر کہ اس سال کے شروع میں سرکاری زمین کی بازیابی کے لیے حکومت کی مسماری مہم کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ، سنہا نے کہا کہ انتظامیہ نے اس معاملے میں بھی غریب لوگوں کو نہیں چھوا ۔ہم نے غریبوں کو ہاتھ نہیں لگایا۔ہاں اس معاملے میں کچھ خرابیاں تھیں لیکن وہ بھی درست کر دی گئیں۔ سرکاری وسائل پر پہلا حق غریبوں کا ہونا چاہیے۔ زمین قانون کے مطابق دی جائے گی۔ جہاں بھی ہمدردانہ نقطہ نظر کی ضرورت ہے، وہ کیا جائے گا۔
حکومت کے اس اعلان سے اگرچہ عوامی حلقوں میں کافی بحث و تمحیص شروع ہوگئی لیکن اس حوالے سے پہل سابق ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کی ۔ موصوفہ نے اس معاملے پر ایک مکمل پریس کانفرنس کرڈالی جس میں انہوں نے الزام لگایا کہ انتظامیہ کا زمینیں الارٹ کرنے کا یہ فیصلہ جموں وکشمیر کے لوگوں کے مفادات کے خلاف فیصلہ ہے۔ پی ڈی پی کی صدر جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر کی انتظامیہ پر بے گھر لوگوں کو مکانات فراہم کرنے کے بہانے سابقہ ریاست میں کچی آبادیوں اور غربت کو درآمد کرنے کا الزام لگایا اور اسے مرکز کے زیر انتظام علاقے کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش قرار دیا۔ انہوں نے سوال کیا ایل جی نے جموں کشمیر میں ایک لاکھ 99 ہزار بے زمین لوگوں کو زمین دینے کا اعلان کیا۔ جموں و کشمیر کے یہ بے زمین لوگ کون ہیں ،اس پر شکوک و شبہات کھل کر سامنے آ گئے ہیںکیونکہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھے گئے مرکزی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، جموں و کشمیر میں صرف 19 ہزاربے گھر خاندان ہیں۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ جموں و کشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے تاکہ بی جے پی کے ووٹ بینک کو بڑھایا جا سکے۔یہ دو لاکھ خاندان کون ہیں؟ کیونکہ اگر فی خاندان صرف پانچ افراد ہی ہوں گے، تو اس کی آبادی 10 لاکھ بنتی ہے۔سابق وزیر اعلیٰ نے حکومت سے مزید پوچھا کہ اس نے کشمیری پنڈتوں کو پانچ مرلہ زمین کیوں نہیں دی جو پچھلے 30سالوں سے جموں میں ایک کمرے کے سیٹ میں رہ رہے ہیں۔انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ جموں میں ہزاروں کشمیری پنڈت رہتے ہیں۔ کیا آپ نے انہیں5مرلہ دیا؟ کیوں نہیں؟پی ڈی پی صدر نے الزام لگایا کہ جموں و کشمیر اور اس کے وسائل بشمول زمین اور ملازمتوں کو ’’مال غنیمت ‘‘ کے طور پر چھینا جا رہا ہے۔جموں و کشمیر ایک گرین بیلٹ ہے، اور حکمران اسے کچی آبادی میں تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ لوگ اس جگہ کی حالت کو بدلنے اور بہتر بنانے کے بجائے کچی آبادیوں اور غربت کوباہر سے امپورٹ کر رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خوش آئند بات یہ ہے کہ جموں کے لوگوں نے اس اقدام کے خطرات کو بھانپنا شروع کر دیا ہےکیونکہ یہ تباہ کن عمل کشمیر پہنچنے سے پہلے جموں کے اوپر سے گزرے گا۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ ملک کے دوسرے حصوں سے 10لاکھ لوگوں کو جموں و کشمیر میں لا کر حکومت مرکز کے زیر انتظام علاقے کے لوگوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کر رہی ہے۔پی ڈی پی صدر نے کہا کہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو متحد ہوکر ان منفی کوششوں کی مزاحمت کرتے ہوئے لداخ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ لداخ کے لوگ زمین کے حقوق اور ملازمتوں کے تحفظ کے لیے چھٹے شیڈول میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔مفتی نے حکمرانوں اور انتظامیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔ آپ مقامی لوگوں سے لیز پر دی گئی جائیداد واپس لے کر باہر والوں کو دے رہے ہیں۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ جس دن سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370کی تنسیخ کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کا فیصلہ کیا، اگلے دن آپ بے زمین لوگوں کا یہ حکم لے کر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ’ ’میں کشمیر اور جموں کے لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ لداخ کے لوگوں کی طرح متحد ہو کر اٹھیں‘۔
زمینوں کی الارٹمنٹ کے معاملے پر ایک اور سابق وزیراعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کےقائد عمر عبداللہ نے بھی ایک بیان جاری کیا۔نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا، ’’حکومت کو واضح کرنا چاہیے کہ وہ بے گھر افراد میں کس کا شمار کر رہے ہیں۔ کیا وہ لوگ جو ایک ہفتہ پہلے یہاں آئے ہیں وہ بھی بے گھر افراد میں سے ہیں؟ کیا اس کی کوئی کٹ آف تاریخ ہے؟‘‘یہ بتاتے ہوئے کہ جو لوگ2019کے بعد جموں اور کشمیر آئے ہیں انہیں’’ان فہرستوں میں شامل نہیں کیا جانا چاہئے۔‘‘ عمر عبداللہ نے کہا، 2019 کے بعد، انہوں نے (حکومت) نے بہت سے لوگوں کو یہاں بسانے کی کوشش کی ہے۔ اگر ارادہ ایسے افراد کو زمین فراہم کرنا ہے تو یقیناً اس سے ہمارے ذہنوں میں شک پیدا ہوگا۔ حکومت کو پہلے یہ واضح کرنا چاہیے کہ وہ بے گھر افراد کی گنتی کیسے کر رہی ہے۔اسی طرح سابق وزیر اورپیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون نے بھی اس ضرورت پر زور دیا کہ حکومت بے زمینوں کے لیے زمین اسکیم کے لیے اہلیت کے معیار کو واضح کرے اور5اگست 2019ءکے بعد کسی بھی نئے ڈومیسائل ہولڈر کو شامل کیے بغیر صرف اور صرف جموں و کشمیر کے سابقہ ریاستی رعایا کے لیے زمین کی الاٹمنٹ کو محدود کرے۔ سجاد لون نے انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اس معاملے پر واضح اور غیر واضح وضاحت فراہم کرے۔سجادلون نے یہ بھی کہا کہ بے زمینوں اور بے گھروں کو زمین مختص کرتے وقت جموں و کشمیر کے سابقہ ریاستی رعایا کے حقوق کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔
زمینوں کی الارٹمنٹ کے معاملے میں صرف کشمیر وادی سے ہی آوازیں نہیں اٹھی ہیں بلکہ جموں خطے سے بھی اس پر آوازیں اٹھائی جارہی ہیں۔ جموں خطے سے تعلق رکھنے والے سابق ریاستی وزیر اعلیٰ اور ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی (ڈی پی اے پی) کے چیئرمین غلام نبی آزاد نے’’بے گھر‘‘ لوگوں کے لئے جموں و کشمیر انتظامیہ کی زمین کی اسکیم پر بات کرتے ہوئے کہا کہ زمین صرف مرکزی علاقے کے غریب باشندوں کو دی جانی چاہئے۔آزاد نے کہا کہ، ’’ہم زمین کی الاٹمنٹ کے قدم کا خیر مقدم کرتے ہیں، لیکن اس کے لیے ایک شرط ہونی چاہیے اور یہ زمین جموں و کشمیر کے غریب باشندوں کو دی جانی چاہیے۔‘‘ڈی پی اے پی چیئرمین نے کہا کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی کی تحلیل کے بعد سے وہ انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ عوام کا منتخب نمائندہ حکومت چلا سکے۔’’جمہوریت میں صرف منتخب نمائندے ہی حکومت چلا سکتے ہیں، چاہے وہ یہاں ہو یا ہندوستان یا دنیا کا کوئی بھی حصہ، افسران چھ ماہ سے زیادہ حکومت نہیں چلا سکتے۔ ہم نے پچھلے چھ سالوں سے انتخابات کا ایک ہی مطالبہ برقرار رکھا ہے اور آج بھی وہی ہے کہ جلد از جلد انتخابات کرائے جائیں۔‘‘
جموں کی ڈوگرہ آبادی اور کلچر کی ترجمانی کا دعویٰ کرنے والے سابق ریاستی وزیر اور ڈوگرہ سوابھیمان سنگٹھن کے سربراہ اور سابق ریاستی وزیر چودھری لال سنگھ نے اس معاملے پر حال ہی میں ایک نجی سوشل میڈیا چینل سے بات کرتے ہوئےبات کرتے ہوئے کہا کہ گورنمنٹ لوگوں کو بے وقوف بنا رہی ہے اور فراڈ کررہی ہے۔اس سلسلے میں جو حکم نامہ نکالا گیا ہے اس میں یہ کہاں واضح کیا گیا ہے کہ یہ زمین کس کو دینی ہے۔وہ کون لوگ ہیں۔ چودھری لال سنگھ کا کہنا تھا کہ حکمرانوں نے اس سے قبل بھی کہا تھا کہ یہاں زمین کوئی باہر والا نہیں لے سکے گا۔اسی طرح کی بات انہوں نے ڈومیسائیل بارے بھی کہی تھی۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ نوکریاں بھی مقامی لوگوں کو ہی ملیں گی باہر والوں کو نہیں۔ بتائے ان میں سے کون سی بات سچی ثابت ہوئی۔ ساری باتیں الٹ کی گئیں۔ انہوں نے جو کہا وہ نہیں ہوا بلکہ جو انکی منشا تھی وہی ہوا۔ ان کا سوال تھا کہ ’بتائے جموں وکشمیر میں کون ایسا ہے جس کے پاس زمین نہیں ہے۔ جب کوئی بے زمین ہے ہی نہیں تو آپ کس کو یہ زمین دینا چاہتے ہیں۔اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ آج تک کسی لکھن پور پار والے کی کوئی زمین جموں وکشمیر میں نہیں ہے کیونکہ یہاںقانون ہی ایسا تھا۔ اسلئے جو بھی باہر والا یہاں آئے گا تو وہ تو یہاں بے زمین ہی کہلائے گا چاہے وہ امبانی بھی ہو۔ بڑے امیر و کبیر لوگ ٹاٹا، برلا،ڈالمیا جیسے بھی جموں کشمیر میں آج کی تاریخ میں بے زمین ہی کہلائیں گے۔ تو یہ کس غریب کی بات کررہے ہیں۔ اب جب باہر والوں کو بھی یہاں کا ڈومیسائیل بنایا گیا ہے تو بتائے کیا یہ زمینیں ان کو دی جائیں گی کیونکہ وہی تو ہیں جو جموں کشمیر میں بے زمین ہیں۔لال سنگھ کا کہنا تھا کہ حکمرانوں نے جموں کشمیر میں زمین والوں کو بے زمین بنایا اوراب یہ نیا کام ہورہا ہے۔ سخت لہجہ اپناتے ہوئے چودھری لال سنگھ کا کہناتھا کہ’’ یہ حکومتی قدم ڈوگروں اور دوسرے جموی نشان والے لوگوں کی پہچان کو بدلنے کی سازش ہے۔ یہاں کے اصل باشندوں کو بے گھر بے زمین اور بے نشان ـ‘بے کاروبار کرنے کی سازش ہے۔ جموں والوں کے برے دن آنے والے ہیں۔کشمیریوں سے پہلے جموں والوں کے برے دن ہیں۔کوئی امیرہو یاغریب وہاں کیوں رہے گا جہاں اسکی جان کو خطرہ ہے ۔سارا خطرہ تو جموں کو ہے۔ خطرہ ان لوگوں کو ہے جو اس ملک کی حفاظت کےلئے جان دے رہے ہیں۔ یہ غریبوں کو پائمال کرکے بڑے امیروں کو نوازنا چاہتے ہیں ۔ یہ ہماری زمینیں چھیننا چاہتے ہیں۔ کسانوں کی زمینیں ہتھیانا چاہتے ہیں۔ہمیں اپنی زمینوں، اپنی پہچان کو بچانا چاہئے‘‘۔
جموں اور کشمیر سے اٹھنے والی بیشتر آوازوں کا اگرچہ حکام نے کوئی جواب نہیں دیا ہے لیکن جموںو کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے ایس کے آئی سی سی میں منعقدہ ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے زمینوں کی الارٹ منٹ پر تنقید کرنے والوں کو جواب دینے کی کوشش کی۔ اپنے خطاب میں لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا کہ کچھ لوگ جموں اور کشمیر انتظامیہ کے بے گھر خاندانوں کو زمین الاٹ کرنے کے فیصلے سے ناراض ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری املاک پر صرف ان ہی کا حق ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دوسری ریاستوں میں ایک پالیسی ہے کہ انہیں زمین دی جا سکتی ہے، لیکن جموں و کشمیر میں ایسی کوئی پالیسی نہیں تھی۔ ہم نے انہیں پانچ مرلے یا زمین فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے،یہ زمین پردھان منتری آواس یوجنا (PMAY) کے تحت فراہم کی جا رہی ہے۔ لیکن، اس سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہوئی ہے۔ جن لوگوں نے اپنے گھر، اور اپنے رشتہ داروں کے گھر سرکاری زمین پر بنائے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری املاک پر صرف ان کا حق ہے اور غریبوں کو سرکاری جائیداد استعمال کرنے سے روکا جائے۔ایل جی کا کہنا تھا کہ’’ ناقدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ جموں وکشمیر میں اس طرح کا انتظام ختم ہو گیا ہے۔ اس قسم کا امتیازی سلوک والا نظام5اگست 2019ءکو ختم ہوا، اور یہ انتظامیہ اور وزیر اعظم کا عزم ہے کہ ملک اور جموں و کشمیر کے غریب لوگوں، دلتوں اور آدیواسیوں کا سرکاری وسائل پر پہلا حق ہونا چاہیے۔یہ بات ان ناقدین کو سمجھنا ہوگی‘‘۔اس سے قبل محبوبہ مفتی کے بیان کے بعد بھی جموں وکشمیر انتظامیہ کا ایک خاصا زوردار بیان سامنے آیا جس میں محبوبہ مفتی کے بیان کو سرتاپیر جھوٹ کا پلندہ قرار دیا گیا۔انتظامیہ سابق وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس کے فوراً بعد، حکومت نے محکمہ اطلاعات کے ذریعے ایک پریس بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ پردھان منتری آواس یوجنا (گرامین) مرحلہ -1 ،4 اپریل 2016ءکو دیہی ترقی کی وزارت، حکومت ہند کے ذریعہ ہاؤسنگ کے تحت شروع ہوا۔حکومت نے کہا کہ جموں و کشمیر میں257349بے گھر کیسوں کی شناخت2011ءکی سماجی و اقتصادی اور ذات کی مردم شماری کے مطابق کی گئی تھی۔اس اسکیم کے تحت حکومت ہند کی طرف سے فی گھر ایک اعشاریہ تیس لاکھ روپے فی یونٹ کی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ حکومت نے مزید کہا کہ تجویز کردہ مکان کا کم از کم سائز ۱ مرلہ ہے۔حکومت نے مزید دعویٰ کیا کہ اس نے جنوری2018سے مارچ 2019تک ایک سروے کیا تاکہ ان مستفید کنندگان کی شناخت کی جاسکے جو 2011ءکے ایس ای سی سی کے تحت باقی رہ جانے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ سروے کے ذریعے حاصل کیے گئے فائدہ اٹھانے والوں کے ڈیٹا کا استعمال مجموعی ہدف اور ایس ای سی سیپرمننٹ ویٹ لسٹ (پی وائی ایل )سے دستیاب اہل مستفیدین کے درمیان خلا کو پر کرنے کے لیے کیا گیا۔ پرائم منسٹر آواس فیز2، گرامین2019کے بعد سے شروع ہوا، 2018،2019کے سروے کی بنیاد پر، (پورے ہندوستان میں کیا گیا)، جس میں جموں و کشمیر میں دو اعشاریہ پینسٹھ لاکھ بے گھر کیس درج کیے گئے اور جموں و کشمیر کو صرف63424مکانات بنانے کےلئے امداد دینے کا ہدف دیا گیا تھا۔ حکومت نے کہا کہ یہ مکانات صرف2022ء میں منظور کیے گئے ہیں۔اسکیم کا یہ مرحلہ31مارچ 2014ءکو ختم ہو رہا ہے۔حکام کا مذید کہنا تھا کہ مکانات کی منظوری اور تکمیل میں جموں و کشمیر کی اچھی کارکردگی کی بنیاد پر،30مئی2023ءکو، دو اعشاریہ پینسٹھ لاکھ بے گھر افراد کے لیے رہائش کو یقینی بنانے کے لیےایک لاکھ نناوے ہزار پانچ سو پچاس مزید پی ایم اے آواس پلس مکانات کی منظوری دی گئی ہے۔حکومت نے کہا کہ ایسے دو ہزار ایک سو سترہ کیسز ہیں جو جموں و کشمیر کے بے گھر افراد کی2018،2019کی عارضی انتظار کی فہرست کا حصہ ہیں اور انہیں مکان رکھنے سے روک دیا گیا کیونکہ یا تو ان کے پاس زمین نہیں ہے یا ان کے پاس جو زمین ہے وہ ریاست، جنگل، زمین کا کوئی دوسرا زمرہ جہاں تعمیر کی اجازت نہیں ہے۔چونکہ حکومت ان لوگوں کو مکانات کی منظوری نہیں دے سکتی جن کے پاس زمین نہیں ہے، اس لیے سب کے لیے رہائش کو یقینی بنانے کے لیے، حکومت نے دو ہزار سات سو گیارہ کیسوں کو5مرلہ زمین الاٹ کرنے کا پالیسی فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ گھر حاصل کر سکیں۔ یہ حکومت کی غریبوں کے ساتھ وابستگی کا مظہر ہے۔ اس لیے محترمہ محبوبہ مفتی کا یہ بیان کہ حکومت 2لاکھ لوگوں کو زمین الاٹ کر رہی ہے حقیقتاً غلط ہے۔
بہرحال حکومت اور اپوزیشن کے بیچ اس حوالے سے بیان بازی اور عدم یقین نے اس معاملے کو الجھا دیا ہے ۔ عوامی حلقوں کو امید ہے کہ اس حوالے سے حکام ضرور ایسی وضاحت کریں گے جس سے ابہامات کو دور کیا جاسکے گا وگرنہ یہ ابہامی صورت حال بے یقینی کو مذید تقویت دینے کا کام کرے گی۔