کیاایل جی بننے سے بظاہر انکار سے’ ون نیشن ون الیکشن کمیٹی‘ میں تقرری تک کا سفر جموں وکشمیر میں آزاد کے سیاسی سفرکے خاتمے اور دہلی کی سیاست میں واپسی کا اشارہ ہے
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ خطہ ٔ جموںو کشمیر سیاست کی ایسی تجربہ گاہ ہے جہاں بڑے بڑے سیاست دانوں کا کچا چھٹا کھل جاتا ہے۔ یہ مثل بھی سیاسی گلیاروں میں مشہور ہے کہ جموں وکشمیر کی سیاست میں کچھ بھی سیدھا نہیں ہے۔ ان مثالوں کے تازہ ترین مصداق جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور سابق مرکزی وزیر جناب غلام نبی آزاد صاحب ہیں جنہیں کچھ ہی ماہ یا برس قبل جموں وکشمیر کے زیرک اور نظریاتی سیاست دان جیسے القابات سے یاد کیا جاتا تھا لیکن آج الزام دیا جارہا ہے کہ وہ بی جے پی کی بی ٹیم اور’ ابن الوقت‘ سیاست کے متوالے ہیں۔
ایک ایسا سیاست دان جو جموں وکشمیر کے ایک دوردراز علاقے میں پیدا ہوا اور اپنی قابلیت، صلاحیت،نظریاتی آسودگی اور وفاداری کے بل پر بھارت کی سیاست کے اُفق پر کئی دہائیوں تک چھایا رہا آج اپنی علاقائی جماعت ڈیموکریٹک پراگریسو آزاد پارٹی کے ننھے منے سے ڈھانچے کو سمیٹ کر یکجا رکھنے میں بھی ناکام ثابت ہورہا ہے۔ قریب ایک سال قبل کانگریس پارٹی کو تیاگ کر اپنی الگ جماعت قائم کرنے کے بعد سےلیکر ابتک ان کی جماعت سے ایک ایک کرکے ان کے ساتھی انہیں چھوڑ رہے ہیں اور وہ واپسی کی راہ پر گامزن ان پنچھیوں کو لبھانے اور روکنے سے قاصر ہیں۔
ابھی چند روز قبل آزاد صاحب کی سیاسی پارٹی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی کی پہلی سالگرہ تھی۔ سالگرہ کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے غلام نبی آزاد نے اعلان کردیا کہ انہیں جموںو کشمیر یو ٹی کے لیفٹیننٹ گورنر بننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ بقول انکے میڈیا کے کچھ حلقوں کی جانب سے چلائی جانے والی ان خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے جن میں کہا جارہا ہے کہ وہ یو ٹی کے نئے ایل جی کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ آزاد کا کہنا تھا کہ وہ نوکری کی تلاش میں نہیں تھے، بلکہ اس کے بجائے سابق ریاست کے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ سابق وزیر اعلیٰ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے کا لیفٹیننٹ گورنر بننے کے بارے میں’’افواہوں‘‘ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ جموں و کشمیر کا ایل جی بننے میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ایجنسی رپورٹوں کے مطابق کانگریس کے سابق رہنما نے کہا کہ وہ روزگار کی تلاش میں نہیں تھے بلکہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔’’میں لوگوں سے درخواست کروں گا کہ وہ افواہوں پر بھروسہ نہ کریں ۔‘‘ آزاد نے اپنی ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی (DPAP) کے یوم تاسیس کے موقع پر ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’میں (جموں و کشمیر) نوکری کی تلاش میں نہیں آیا، میں لوگوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں‘‘۔کچھ حلقوں کی طرف سے کی جارہی تنقید کہ وہ بی جے پی کے کہنے پر جموں و کشمیر کی سیاست میں واپس آئےہیں‘ پر غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ’’ کچھ لوگ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میںسیاسی بحالی کی تلاش میں ہوں۔جب میں 2005 ء میں یہاں آیا تھا (بطور وزیر اعلی)، میں نے ہاؤسنگ اور شہری ترقی اور پارلیمانی امور جیسی دو قیمتی مرکزی وزارتیں تیاگ دی تھیں ،میں نے اسوقت ایسا صرف جموں وکشمیر کے لوگوں کی خدمت کے لیے کیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ میں بے روزگارتھا‘‘۔آزاد کا مذید کہنا تھا کہ بے روزگاری اور مہنگائی جموں و کشمیر کو درپیش دو اہم مسائل ہیں جنہیں وہ خطے کی سیاحتی صلاحیت سے فائدہ اٹھا کر حل کرنا چاہتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ یہ سچ ہے کہ افراط زر ہندوستان کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ یورپ میں مہنگائی سب سے زیادہ ہے لیکن ان کے پاس اس سے نمٹنے کے لیے دیگر ذرائع موجود ہیں۔ ہم ایک غریب ریاست ہیں اسلئےیہاںبے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ نوکریاں نہیں ہیں۔ حکومت پوسٹوں کا اشتہار دے رہی ہے لیکن انٹرویوز نہیں ہو رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے پاس نوکری نہیں ہے جبکہ ان کے والدین نے انکی تعلیم پر اپنی ساری جمع پونجیاںلٹا دی ہیں۔انہوں نے مذیدکہا کہ شعبہ سیاحت معاشرے کے تمام طبقات کے لیے روزی روٹی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایک ٹیولپ گارڈن (جو2007میں بنایا گیا تھا) نے ہزاروں لوگوں کو روزی روٹی فراہم کی ہے۔ بطور چیف منسٹر، میں نے جموں اور کشمیر کے ہر ضلع میں10سے 12سیاحتی مقامات کو تیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔انہوں نے مزید کہا،میں نے لوگوں کو ہوم اسٹے کی سہولیات کے قیام کے لیے قرض فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس سے انہیں کمائی کے مواقع مل سکتے تھے۔2019ء میں مرکز کے ذریعہ آرٹیکل370اور آرٹیکل 35اے کی منسوخی کا حوالہ دیتے ہوئے آزاد نے کہا کہ یہ ایک ’’بڑی غلطی‘‘ تھی۔ خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق آزاد نے کہا کہ ’’ پچھلے کئی سالوں میں کچھ سیاسی غلطیاں ہوئیں جنہوں نے ریاست کو آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیل دیا۔ پچھلے نو سالوں میں ایک اور بڑی غلطی ہوئی کہ370اور آرٹیکل 35اے کو ہٹا دیا گیا۔‘‘غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ ’’آرٹیکل35اے، بعد میں آرٹیکل35بی کا اعلان آزادی کے بعد نہیں کیا گیا۔ اسے مہاراجہ (ہری سنگھ) نے1925ءمیں لایا تھا۔ میں نے یہ بات پارلیمنٹ میں کہی تھی کہ اگر بی جے پی کو معلوم ہوتا کہ وہ آرٹیکل 370اور آرٹیکل 35اےکو ہاتھ نہیں لگاتی۔اس غلطی نے ہمیں مزید پیچھے دھکیل دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک غیر یقینی صورتحال تھی کہ زمین ہمارے ساتھ رہے گی یا نہیں اور اسی مفروضے کو لیکر یہ غلطی کردی گئی۔آزاد نے پارٹی رہنماؤں سے کہا کہ وہ مخالفین کے خلاف ذاتی حملے نہ کریں۔’’میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ہمارے ساتھ سیاسی فراڈ ہوا لیکن میں کسی کی ظاہری شکل پر تبصرہ کیوں کروں؟ ‘‘غلام نبی آزاد نے جموں و کشمیر میں ڈرگ مافیا چلانے میں ملوث افراد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’’منشیات کا استعمال ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ بہت سے لوگ منشیات کا کاروبار کر کے کروڑ پتی بن گئے ہیں۔ انہیں پھانسی پر لٹکایا جانا چاہیے‘‘۔
یہ تو تھا سابق وزیراعلیٰ کا بیان اور لیفٹیننٹ گورنر بننے کی افواہوں کی تردید لیکن کشمیر میں یہ بات معروف ہے کہ افواہیں اور دھول بے وجہ نہیں اٹھتیں۔ سابقہ ادوار میں جب جب کوئی افواہ یہاں چلی ہے تو اس ’بے خودی‘ کے پیچھے ’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘ کا معاملہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے غلام نبی آزاد کو بھی فوراً اس معاملے کی وضاحتیں دینا پڑرہی ہیں۔ یہ بھی ایک امر واقع ہے کہ بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا سے ریٹائرمنٹ کے بعد سےغلام نبی آزاد نے جس سیاسی روش پر گامزن ہوجانے کا فیصلہ کیااور پھر اس راہ ِ اقتدار کی بساط پر جو جو چالیں چلیں وہ بقول کچھ سیاسی مبصرین کے موصوف کے ناقدین کی اِن الزامات کوتقویت پہنچارہے ہیں کہ موصوف بی جے پی کی بی ٹیم ہیں اور وزیراعظم نریندر مودی کی ایماء پر جموں وکشمیر کی سیاست میں گھس گئے ہیں ۔ اگرچہ آزاد صاحب نے بارہا ان الزامات کی تردید کی ہے اور انہیں مفروضہ قرار دیا ہے لیکن بادی النظر میں وہ ان الزامات کو مکمل طور پر زائل کرنے سے قاصر رہے ہیں۔قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ جب 2021ء میں غلام نبی آزادبھارتی پارلیمان کے راجیہ سبھا سے ریٹائر ہوگئے تو انہوں نے پارلیمان سے ایک جذباتی خطاب کیا ۔اُس موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے کھل کر آزاد صاحب کی تعریفوں کے پل باندھے ۔یہاں تک کہ وزیراعظم غلام نبی آزاد کی شخصیت پر تبصرہ کرتے کرتے آبدیدہ تک ہوگئے۔ یہ ایک تاریخی لیکن حیران کن موقع تھا جس نے عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی لوگوں کو بھی ورطہ ء حیرت میں ڈال دیا۔ اگرچہ آزاد صاحب نے اسی وقت وضاحت کرتے ہوئے مودی جی کی تعریفوں کو حسن اتفاق اور معمول کا معاملہ قرار دیا تھا لیکن ان کی جماعت کانگریس نے اس وضاحت کو قبول نہیں کیا اور دال میں کچھ کالا ہونے کی باتیں ہونے لگیں۔ کچھ ہی وقت گزرا کہ آزاد صاحب نے کانگریس پارٹی کے ساتھ اپنی برسوں پرانی نظریاتی وابستگی کو تیاگ دینے کا اعلان کردیا اور یوں ان کے ناقدین کو موقع ملا کہ وہ ان کے اس استفعے کو بی جے پی کی ایماء پر دیا گیا استفعیٰ قرار دیں۔ اس کے بعد آزاد صاحب نے ڈیموکریٹک پراگریسو آزاد پارٹی بناکر جموںو کشمیر کی سیاست میں کودنے کا اعلان کردیا اور آناً فاناً جموں وکشمیر پردیش کانگریس سے وابستہ 100 سے زائد قائدین اور اہم اراکین نے ان کے ساتھ مل جانے کا فیصلہ سنادیا۔ یہ ایک سیاسی بھونچال تھا اور سیاسی پنڈتوں کا اسوقت خیال تھا کہ غلام نبی آزاد جموںو کشمیر کی سیاست میں ایک اہم ترین کھلاڑی کے طور پر ابھر چکے ہیں۔ کئی ایک نے انہیں مستقبل کا وزیراعلیٰ قرار دیا اور کئی بڑے سیاسی مبصر یہ تک ماننے لگے کہ آزاد کی جموں وکشمیر سیاست میں انٹری کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی نے یہاں اپنا وزیراعلیٰ لانے کی کوششیں ترک کرکے اس کام کےلئے ایک جموی مسلمان لیڈر کو میدان میں اتار لیا ہے۔ انتہائی زیرک سمجھے جانے والے غلام نبی آزاد بھی شاید اس ابتدائی کامیابی کے جھٹکوںکو نہیں سمجھ پائے اور بی جے پی کےلئے نرم گوشہ اختیار کرتے ہوئے انہوں نے کانگریس پارٹی ،نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی وغیرہ پر چڑھائی کردی۔ چونکہ بی جےپی ان کےلئے اور یہ بی جے پی کےلئے نرم نظر آرہے تھے اس لئے ان کے مخالفین اور ناقدین نے ایک بار پھر شور اٹھایا کہ’ آزاد‘ بی جے پی کی ایماء پر میدانِ جموںو کشمیر میں اترے ہیں۔ ابتدائی کامیابیوں کا یہ خمار ابھی اترا بھی نہ تھا کہ ڈیموکریٹک پراگریسو آزاد پارٹی کا جہاز ہچکولے کھانے لگا اور ڈوبتے جہاز میں سے سواریوں نے چھلانگیں مار مار کر اترنے کا فیصلہ کرلیا۔آزاد صاحب کے ساتھ مل جانے کے محض کچھ وقت بعد ہی ان کی پارٹی چھوڑنے والوں میں جہاں دوسرے درجے کے درجنوں لیڈر شامل ہیں وہیں پر ان میں سابق ڈپٹی چیف منسٹر اور ڈی اے پی کے وائس چیئرمین تارا چند، اور سابق وزراء بلوان سنگھ، منوہر لال شرما اور پیرزادہ محمد سعید بھی شامل تھے۔پیرزادہ سعید کی کانگریس میں واپسی ڈی اے پی کے لیے ایک جھٹکا ہے کیونکہ وہ کشمیر میں پارٹی کا چہرہ تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے گجر لیڈروں نظام الدین کھٹانہ اور چودھری گلزار کے ڈی اے پی چھوڑنے کے فیصلے کو بھی متاثر کیا۔حد یہ ہے کہ خود ان کے آبائی ضلع ڈوڈہ سے بھی ان کی جماعت کو اراکین کے خروج کا سامنا ہے اور صرف ایک برس کے مختصر سے عرصے میں آزاد کی آزاد پارٹی گویا سمٹ کر رہ گئی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق آزاد صاحب کی سیاسی ناکامی دراصل بی جے پی کےلئے بھی ایک لمحہ ء فکریہ ہے کیونکہ بی جے پی جموی علاقوں خاص طور پر پیرپنچال اور چناب خطوں میں بی جے پی مخالف ووٹ کو تقسیم کرنے کےلئے آزاد صاحب کو ایک اہم کھلاڑی کے طور پر دیکھتی ہے ۔چو نکہ بی جے پی مخالف ووٹ کی تقسیم ایک ایسا معاملہ ہے جس کا فائدہ براہ راست بی جے پی کو ہی مل سکتا ہے اور نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس پارٹی بظاہر اس بات کو سمجھتے بوجھتے غالباً ان علاقوں میں کسی سیٹ ایڈجسٹمینٹ وغیرہ پر متفق ہوسکتے ہیں اسلئے بھی آزاد صاحب کی پارٹی کا متحد اور مضبوط رہنا بی جے پی کےلئے ضروری ہے لیکن ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ غلام نبی آزاد نے کانگریس سے اخراج کے بعداوّل دن سے اپنا پلڑا کسی نہ کسی طرح بی جے پی کے پلڑے ہی میں رکھا ہوا ہے۔ راہول گاندھی کی کھلے عام مخالفت سے لیکر وزیراعظم نریندر مودی کی کھلے بندوں تعریف تک کی داستان اسی بات کی غماز نظر آتی ہے۔بقول ایک کالم نویس اور سیاسی مبصر آزاد صاحب تو بی جے پی کو خوش کرنے کےلئے ہندو مت کو اسلام سے قدیم مذہب اور ہندوستانی مسلمانوں کو اصلاً ہندو قرار دینےکا بیان تک دے دیا تھا اگرچہ بعد ازاں انہیں فوراً اس کی وضاحتیں دینا پڑیں تھیں۔
ہم نے جب جموں کے ایک سیاسی دانشور سے آزاد صاحب کی سیاسی کاوشوں کے بارے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ غلام نبی آزاد گومگو کی کیفیت میں ہیں۔ وہ بی جے پی کو خوش رکھ کر ہندوستانی سیاست میں اپنی جگہ بچائے رکھنا چاہتے ہیںلیکن دوسری جانب اپنے ’سیکولر‘ کردار اور مسلم ووٹ بینک کی بھی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دو متضاد اہداف ان کی سیاست کو لے ڈوبے ہیں اور وہ غلام نبی آزاد جن کی وزرات اعلیٰ کے ایام کو جموں وکشمیر کے لوگ اچھے الفاظ میں یاد کرتے تھے اور جنہوں نے متوازن اور شائستہ سیاست دان ہونے کا اعزاز حاصل کررکھا تھا ‘اب جموں وکشمیر کے ساتھ ساتھ بھارت بھر میں ’پراکسی ہونے‘ جیسےبد نام الزام کا سامنا کررہے ہیں۔ اس ضمن میں جو حالیہ معاملہ ان کے خلاف ایک اورمبینہ ثبوت کی مثال بن گیا ہے وہ مرکزی حکومت کی جانب سے انہیں ’ون نیشن ون الیکشن ‘ سلسلے میں بنائی گئی آٹھ رکنی کمیٹی کا ممبر بنانےکا معاملہ ہے۔ آزاد کی اس تقرری کو بعض سیاسی مبصرین ان کی دہلی سیاست میں واپسی سے بھی تعبیر کررہے ہیں ۔ ان مبصرین کے مطابق جموں وکشمیر کی سیاست میں کوئی اثر ڈالنے میں آزاد صاحب ناکام ہوچکے ہیں اس لئے بی جے پی حکومت ان کی ’مبینہ خدمات‘ کے عوض انہیں اس اہم کمیٹی میں شامل کرچکی ہے ۔ پورے ملک ایک ساتھ الیکشن کمیٹی میں آزاد صاحب کی تعیناتی پر سیاسی جماعتوں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس تقرری پر جموں و کشمیر کانگریس کے صدر وقار رسول وانی نے کہا ہے کہ حکومت کا اقدام اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ آزاد ایک ’’خالص بی جے پی اور آر ایس ایس آدمی‘‘ ہیں۔ وانی نے دعویٰ کیا کہ آزاد ان لوگوں میں شامل ہیں جن پر وزیر اعظم نریندر مودی سب سے زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ بغیر کسی وجہ کے نہیں تھا کہ مودی نے2021ءمیں راجیہ سبھا سے آزاد کی الوداعی پر آنسو بہائے تھے ۔اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ آزاد کے کئی وفادار کانگریس میں واپس آچکے ہیں، وانی نے کہا کہ انہوں نے ایک سیکولر غلام نبی آزاد کا ساتھ دیا تھا لیکن انہیں بہت کم معلوم تھا کہ انہیںبی جے پی ’’سیکولر ووٹوں کو تقسیم کرنے‘‘کے لئے استعمال کررہی ہے۔کانگریس کے ترجمان ڈاکٹر جہانزیب سروال نے کہا کہ آزاد کی تقرری ان کی بی جے پی کے ساتھ دیرینہ وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا،’’انہوں نے راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے موجودہ لیڈر ملک ارجن کھرگے کو خارج کر دیا ہے، جنہوں نے ایک عاجزانہ پس منظر سے ہندوستان کی سب سے پرانی سیاسی پارٹی کی قیادت کرنے کا شاندار سفر طے کیا ہے۔ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ آزاد کو اس طرح کا استحقاق کیوں دیا جا رہا ہے جب وہ پارلیمنٹ کے کسی ایوان کے رکن نہیں ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ترجمان اور سابق ایم ایل سی فردوس ٹاک نے کہا،’’یہ واضح ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس آنے والے 2024 ء کے عام انتخابات کے لیے ایک خاص منصوبہ ہے اور وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کون لوگ ہیں جو ان کی اسکیم کے مطابق ہیں۔پینل کو’آئی واش‘ کے طور پر بیان کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، یہ محسوس کرتے ہوئے کہ غلام نبی آزاد کا تجربہ جموں و کشمیر میں ناکام ہو گیا ہے، وزیر اعظم اب سیاسی طور پر اپنے دوست کی بحالی اور اپنے قریبی ساتھی کو قومی سیاست میں واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔جہاں نیشنل کانفرنس (NC) لیڈروں نے آزاد پر بات کرنے سے انکار کر دیا، وہیں بی جے پی اور تجربہ کار لیڈر کی پارٹی ڈی پی اے پی نے حکومت کے فیصلے کو درست قرار دیا۔بی جے پی کے جموں و کشمیر کے صدر رویندر رینا نے کہا، ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ آزاد صاحب کی سیاسی زندگی کا زیادہ تر حصہ کانگریس پارٹی میں گزارنے کی وجہ سے ہمارے ان سے سیاسی اختلافات ہیں۔ اگرچہ ہم سیاسی مخالفین ہیں، وہ ہمارے ملک کے ایک سیاسی قدآور ہیں جو اتنے سالوں تک راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف رہے۔ وہ متعدد بار مرکزی وزیر اور جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔‘‘رینا نے کہا کہ آزاد کا انتخابی سیاست کا وسیع تجربہ اور کمیٹی میں ان کی شمولیت ’اچھی اور صحت مند جمہوریت ‘کا حصہ ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ پینل میںسینئر ایڈوکیٹ ہریش سالوے، 15ویں مالیاتی کمیشن کے سربراہ این کے سنگھ، لوک سبھا کے سابق جنرل سکریٹری سباش کشیپ، اور سابق چیف ویجیلنس کمشنر سنجے کوٹھاری کے علاوہ غلام نبی آزاد بھی شامل ہیں جبکہ اس کی سربراہی سابق صدر ہند جناب رام ناتھ کووند کررہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ’آزاد ‘ کی اس کمیٹی میں شمولیت سے ڈی پی اے پی کی بنیاد مزید خراب ہو سکتی ہے، جو پچھلے سال قائم ہونے کے بعد سے آزاد کے کئی سینئر لیڈروں اور قریبی ساتھیوں کی علیحدگی کے بعد الٹ پلٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ یہاں تک کہ وادی چناب جس میں کشتواڑ، ڈوڈہ اور رام بن اضلاع شامل ہیں، جہاں آزاد اور ان کی پارٹی کی اصل موجودگی تھی،میں بھی ان کے پاس صرف چند گنے چنےلیڈر رہ گئے جن میں سابق وزراء جی ایم سروری اور عبدالمجید وانی شامل ہیں۔ ان کے زیادہ تر وفاداروں کے کانگریس میں واپس آنے اور ان کا سیاسی تجربہ ناکام ہونے کے بعد، آزاد ایک بار پھر قومی سطح پر کردار ادا کرنے کی طرف مائل ہونے کا امکان ہے اور کووند کمیٹی انہیں یہ موقع فراہم کرتی ہے جس کا یہ مطلب ہے کہ انکی جموںو کشمیر میں سیاست کا سفر مبینہ طور پر اختتام پذیر ہونے والا ہے ۔
ایک سیاسی مبصر کے نزدیک چونکہ آزاد صاحب کی دال جموں وکشمیر کی سیاست میں گھل نہیں سکی اس لئے بوجوہ انہوں نے جموںو کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر بننے کا شوشہ میدان میں ڈالا ہے تاکہ ان کے ساتھ موجود لوگوں کو یقین دلاسکیں کہ ان کا سیاسی مستقبل محفوظ ہے۔ دوسری جانب کووند کمیٹی میں شمولیت کے معاً بعد’ ون نیشن ون الیکشن ‘ معاملے پر متحرک ہوکراور بیانات داغ کر وہ دہلی سیاست میں واپسی کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ مذکورہ سیاسی مبصر کی مانیں تو ایسا کرنا آزاد صاحب کی مجبوری بھی ہے کیونکہ انہیں اپنی سیاسی زندگی کے ساتھ ساتھ سیاست میںنئی آمد کرنے والے اپنے بیٹے صدام کی سیاست کو بھی آگے بڑھانا ہے جس کےلئے مضبوط کاندھوں اور مناسب سپورٹ کی ضرورت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔