مرکزی سرکار پر جہاں ایکطرف جموںو کشمیر کی جماعتیں اسمبلی انتخابات کی مانگ کر رہی ہیں، وہیں دوسری طرف سے بھاجپا کے کشمیر میں افراتفری کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔کشمیر کے بھاجپا یونٹ میں خلفشار کی خبریں پہلے اگست میں سامنے آنا شروع ہوئی تھیں جب وادی کے پارٹی لیڈران نے جموں کے کچھ لیڈران پر پارٹی کو ہائی جیک کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اور کئی پارٹی لیڈران سرینگر کے ایک ہوٹل میں ان معاملات پر میٹنگز بھی کرتےرہے۔میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ یہ لیڈران پارٹی چھوڑ سکتے ہیں تاہم بعد میں جموںو کشمیر پارٹی یوٹی صدر رویندر رینہ نے سرینگر پہنچ کر لیڈران میں ناراضگی کو کسی حد تک کم کرنے کی کوشش کی اور رپورٹس کے مطابق انہوں نے لیڈران کو استعفے دینے سے روکا تھا۔
رویندر رینہ نے کشمیر یونٹ کے سوشل میڈیا سربراہ ابھیجیت جسروٹیا کو ان کے چارج سے فارغ کر دیا۔وہیں ویر صراف اور مدثر وانی، جنہیں بالترتیب جنوبی اور شمالی کشمیر کا پارٹی آپریشنز کی نگرانی کا چارج تھا، کو جموں ہیڈ کوارٹر واپس بلایا گیا۔ان سب کارروائیوں کے بعد جب یہ معاملہ ٹھنڈا ہونے لگا تو پارٹی نے ان لیڈران کے خلاف ایکشن لینا شروع کیا جنہوں نے کشمیر یونٹ میں خلفشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔
11 ستمبر کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی جموں و کشمیر یونٹ نے پارٹی کے سینئر لیڈر و نائب صدر صوفی یوسف کو مبینہ طور پر پارٹی مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا تھا۔ نوٹس میں صوفی یوسف کو سات دنوں کے اندر جواب دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ واضح رہے صوفی یوسف بھاجپا کے ان سینئر لیڈران میں سے ہیں جنہوں نے وادی کشمیر میں شورش کے دوران بھاجپا میں شمولیت اختیار کی تھی۔صوفی یوسف نے بھاجپا میں 1996میں شمولیت اختیار کی۔اننت ناگ سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ صوفی یوسف نے آج تک کئی اسمبلی و پارلیمانی چناو لڑے لیکن کامیابی حاصل نہیں کی ۔2015میں انہیں پارٹی نے قانون ساز کونسل کا ممبر بھی بنایا تھا۔1999 اننت ناگ پارلیمانی سیٹ کے لیے بھاجپا امیدوار غلام حیدر نورانی کے لیے انتخابی مہم کے دوران وہ دھماکے میں بال بال بچ گئے تاہم نورانی اس حملے میں مارے گئے۔
صوفی یوسف کا کہنا ہےکہ” انہیں نہیں لگتا کہ پارٹی نےانکے خلاف نوٹس جاری کی ہے اس میں وہ افراد ملوث ہونگے جو انکے پارٹی نائب صدر ہونا برداشت نہیں کر پاتے“۔ اسکے دو ہفتوں بعد بھاجپا نے ایک اور نوٹس 8 لیڈران کے خلاف جاری کی اور انہیں” باغی“بھی قرار دیا گیا۔سنیل سیٹھی کی سربراہی میں بی جے پی کی ڈسپلنری کمیٹی نے جن آٹھ لیڈران کے خلاف نوٹس جاری کیا ہے ان میں جموں وکشمیرکے پارٹی ترجمان الطاف ٹھاکر، علی محمد میر، جی ایم میر، آصف مسعودی، عارف راجا، انوار خان، منظور بٹ اور بلال پرّے شامل ہیں۔جاری نوٹس میں کہا گیا ہے کہ’’صوفی یوسف کے خلاف ڈسپلنیری کی انکوائری کرتے ہوئے ڈسپلنیری کمیٹی کے نوٹس میں آیا کہ آپ میں سے ہر ایک کے خلاف پارٹی میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے سنگین الزامات کے ثبوت سامنے آئے ہیں۔‘‘نوٹس میں مزید کہا گیا ہے کہ’’آپ کی سرگرمیوں سے پارٹی قیادت میں عدم اعتماد کا احساس پیدا ہوا ہے۔ پارٹی میں آپ کی پوزیشن اور آپ کی ماضی کی شراکت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈسپلنیری کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو طرز عمل پر غیر مشروط معافی مانگنے کا ایک موقع دیا جائے گا اور آئندہ ایسی کسی بھی سرگرمی کو دوبارہ نہ کرنے کی صورت میں ڈسپلنری کمیٹی آپ کے خلاف باقاعدہ کارروائی شروع کرے گی۔ جس کی وجہ سے آپ کو پارٹی کے آفیشل عہدوں سے ہٹایا جا سکتا ہے اور یہاں تک کہ نظم و ضبط کے الزامات ثابت ہونے کی صورت میں بنیادی رکنیت سے بھی آپ کو خارج کیا جاسکتا ہے۔‘‘کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب یہ آٹھ لیڈران غیر مشروط معافی نامہ ایک ہفتے میں پیش کرتے ہیں تو وہ پارٹی کے ریاستی صدر کو مزید کاروائی کے لئے بھیج دیا جائے گا۔
اسکے کچھ روز بعد ہی بھاجپا نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ آٹھ لیڈران نے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔چیئرمین ڈسپلینری کمیٹی ایڈوکیٹ سنیل سیٹھی نے کہا کہ جن آٹھ رہنماؤں کو نظم و ضبط کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کیا گیا تھا، انہوں نے اپنے طرز عمل کے لیے’’غیر مشروط معافی‘‘ مانگی ہے اور اس طرح کی سرگرمیوں کو دوبارہ نہ کرنے کا عہد کیا ہے۔ سنیل سیٹھی نے کہا کہ ان کو جاری کردہ نوٹس کے جواب میں، تمام آٹھ رہنماؤں نے اپنا ’’غیر مشروط معافی نامہ‘‘جمع کرایا ہے اور اس طرح کے طرز عمل کو دوبارہ نہ کرنے اور پارٹی مخالف سرگرمیوں یا نظم وضبط میں ملوث نہ ہونے کا عہد بھی دیا ہے۔ سنیل سیٹھی نے کہا کہ بی جے پی ڈسپلینری کمیٹی نےان لیڈران کے پارٹی کے لیے ماضی میں کنٹریبیوشن کو دیکھتے ہوئے انکے خلاف معاملے کو بند کرنے کی درخواست پارٹی یوٹی صدر سے کی ہے۔
سیاسی ماہرینِ کا کہنا ہے وادی میں مخالف جماعتوں کو ملک مخالف قرار دینے اور سخت ترین الزامات لگانے کے بعد ان لیڈران کے پاس معافی مانگنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا کیوں کہ بھاجپا سے نکلنے کے بعد انکےلیے وادی میں سیاسی سفر یہی دم توڑ جاتا۔